میڈیکل کالجس اور ملازمتوں سے حکومت کی غفلت

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس

چند دن قبل ایک نیوز ایٹم یا خبر نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور وہ خبر ایمپلائمنٹ، آکسیجن ٹاملناڈو میں درج بیروزگاروں کی تعداد سے متعلق تھی جس میں بتایا گیا کہ 75,88,359 بیروزگاروں نے ملازمتوں کے حصول کی خاطر اپنے ناموں کا اندراج کروایا۔ اہم بات یہ ہے کہ ملازمت کے خواہاں امیدواروں میں 18 سال سے کم عمر امیدواروں کی تعداد 17,81,695 ہے جبکہ 19 تا 23 سال عمر کے امیدواروں کی تعداد 16,14,582، 24 تا 35 سال عمر کے حامل امیدواروں کی تعداد، 28,60,359، 35 تا 57 سال عمر کے 13,20,337 امیدوار اور 58 سال سے زائد امیدواروں کی تعداد 11,386 بتائی گئی ہے، یہ اعداد کسی کو بھی افسردہ کرنے والے اعداد ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ مذکورہ اعداد و شمار اُترپردیش یا بہار جیسی پسماندہ ریاستوں کے نہیں بلکہ جنوبی ہند کی کسی حد تک ترقی یافتہ ریاست تاملناڈو کے ہیں۔ ٹاملناڈو کی بہ نسبت اترپردیش اور بہار کی آبادی بہت زیادہ لیکن ترقی بہت کم ہے۔ ٹاملناڈو جیسی ترقی یافتہ ریاست کے ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں درج امیدوار کی یہ تعداد ہے تو پھر یوپی اور بہار جیسی ریاستوں میں ملازمتوں کے خواہاں امیدواروں کی تعداد اور ان کی حالت زار کا حال کیا ہوگا۔ ان دیکھے روزگار یا ملازمتیں: بیروزگاروں کیلئے روزگار یا ملازمتیں کہاں ہیں ؟ وہ سادہ نگاہوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ 31 مارچ 2021ء کو دیکھا گیا کہ مرکزی حکومت کے محکمہ جات میں 8,72,243 جائیدادیں مخلوعہ تھیں اور حکومت نے ان مخلوعہ جائیدادوں میں سے 78,264 جائیدادوں پر بھرتیاں کیں جس کے بعد بھی تقریباً 8 لاکھ جائیدادیں مخلوعہ ہیں اور حکومت ان جائیدادوں کو پُر کرنے میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔
ہر طرف ملازمتیں یا روزگار کے موقع ہیں لیکن ہم ان کو دریافت کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حال ہی میں مجھے ہمارے ملک کے ممتاز کارڈیو تھوراسک سرجن ڈاکٹر دیوی شیٹی کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ کی سماعت کا موقع ملا۔ یہ وہی ڈاکٹر شیٹی ہیں جنہوں نے نارائن ہیلتھ کے نام سے بے شمار اسپتال قائم کئے ہیں۔ ویڈیو ریکارڈنگ میں ڈاکٹر شیٹی نے آخر کیا کہا اس گفتگو کے اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
’’ہمیں انڈر ۔ گریجویشن نشستوں اور پوسٹ گریجویشن نشستوں کی سنگین قلت کا سامنا ہے۔ اگر ہم غرب الہند کے علاقہ میں جاتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس علاقہ میں 35 میڈیکل کالجس ہیں جہاں امریکہ جانے والے ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یعنی ان کالجوں میں ایسے ڈاکٹرس تیار کئے جاتے ہیں جو اپنی تعلیم کے ختم ہوتے ہی امریکہ چلے جاتے ہیں۔ یہ میڈیکل کالجس ایک شاپنگ مال میں کرایہ پر حاصل کردہ 50 ہزار مربع فیٹ رقبہ پر محیط ہیں۔ ان میں ڈاکٹرس کی لاجواب تربیت دی جاتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایک میڈیکل کالج قائم کرنے کیلئے 400 کروڑ روپئے کی کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اس قدر زیادہ رقم خرچ کرنے کے بعد میڈیکل کالج کی عمارت کھڑی دکھائی دیتی ہے، کیا یہ معاوضہ مضحکہ خیز نہیں؟ ڈاکٹر شیٹی کا یہ بھی کہنا تھاکہ ’’100 طلبہ کو تربیت فراہم کرنے کیلئے میڈیکل کالجس کو 140 فیکلٹی ممبرس کی ضرورت ہی نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 140 فیکلٹی ممبرس تو ایک ایسا بڑا میڈیکل کالج چلا سکتے ہیں جہاں طلبہ کی تعداد 1000 ہو اور وہ ان طلبہ کو شاندار تربیت سے سنوار سکتے ہیں۔
’’ہم نے طبی تعلیم یا Medical Education کو دولت مند، اشرافیہ کا معاملہ بنادیا ہے… آج یہ حال ہوگیا ہے کہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچے ڈاکٹرس بننے کا خواب نہیں دیکھتے۔ مذکورہ طریقہ کو اختیار کیا گیا تو اس کے زبردست نتائج برآمد ہوں گے۔ دنیا بھر میں غیرمعمولی قابل ڈاکٹرس تیار ہوکر آئیں گے، جن کے ہاتھوں اور آنگلیوں میں جادو ہوگا جو غریب پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ یہ قابل ترین اس لئے ہوں گے کیونکہ ان میں 24 گھنٹے کام کرنا کا جذبہ ہوگا اور ایسا وہ اس لئے کرسکیں گے تاکہ طبی تعلیم کے موجودہ رجحان کو تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔ ڈاکٹر شیٹی کے مطابق ’’ہر 12 منٹ میں ایک حاملہ خاتون کو بچہ جنم دیتے ہوئے مرنا چاہئے ؟ کیونکہ ہمارے ملک میں 3 لاکھ نومولود پیدا ہوتے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں؟ آخر کیوں ہمارے وطن عزیز میں 1.2 ملین بچے اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں؟ یہ ناقابل قبول ہے‘‘۔’’ہمیں 2 لاکھ گائناکالوجسٹس درکار ہیں جبکہ ہمارے یہاں 50 ہزار سے کم گائناکالوجسٹس ہیں جن میں سے نصف ابسٹیٹرکس کی پریکٹس نہیں کرتے۔ ہمیں 2 لاکھ Anesthetists کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس ان کی تعداد 50 ہزار سے کم ہے۔ ہمیں 2 لاکھ ماہر امراض اطفال کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی نگہداشت صحت کے معاملے میں معاشرہ کی مدد کرسکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس 50 ہزار سے کم ماہر امراض اطفال ہیں‘‘۔ ہمیں کم از کم ایک لاکھ پچاس ہزار ریڈیالوجسٹس کی ضرورت ہے تاہم ہمارے یہاں 10,500 سے بھی کم ریڈیالوجسٹس ہیں۔ ’’اس ملک کو اضافی بجٹ مختص کرنے کی ضرورت نہیں، اس ملک کو میڈیکل نرسنگ اور نیم طبی (پیرامیڈیکل) کی فراخدلانہ تعلیم کی ضرورت ہے۔
غیرفراخدلانہ حکومتیں
ڈاکٹر شیٹی کے مطابق ایسی ہزاروں ملازمتیں ہیں جو معمولی سی کوشش کے نتیجہ میں صرف نگہداشت صحت کے شعبہ میں تخلیق کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح دوسرے شعبہ میں بھی معمولی کوشش کے ذریعہ ہزاروں کی تعداد میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں، اس طرح کے شعبوں میں تعلیم، شہری ترقیات ، ندیوں و تالابوں، کنٹوں، جنگلات، افزائش مویشیان اور زرعی تحقیق و توسیع اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبے شامل ہیں۔ ان تمام شعبوں میں ہزاروں لاکھ ملازمتیں پیدا کی جاسکتی ہیں جس کے نتیجہ میں لاکھوں بیروزگاروں کیلئے راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مزید براں یہ کہ حکومتیں ڈرپوک ہیں، وہ ایسی ملازمتیں یا نوکریوں کے مواقع پیدا کرنے سے خوف زدہ ہیں جن کی حکومتی شعبہ میں شدید ضرورت ہے کیونکہ ان لوگوں نے خود کو چھوٹی حکومت اچھی حکومت کے طلسم میں مبتلا کر رکھی ہے۔ حکومتوں میں معلومات کی کمی پائی جاتی ہے جیسا کہ ڈاکٹر شیٹی نے یہ نکتہ اٹھایا ہے۔ ہم تاریخی عمارتوں کی تعمیر کررہے ہیں ناکہ فعال اور خودمکتفی میڈیکل کالجس کی تعمیر کررہے ہیں، یعنی ہم مختلف عمارتیں تعمیر کرواکر خود کو اس بات کیلئے مطمئن کرنے لگے ہیں کہ چلو تاریخ میں ان عمارتوں کے باعث ہمارا نام رہے گا۔ کاش حکومتیں! عمارتوں کی بجائے میڈیکل کالجس قائم کرتی تو کتنا بہتر ہوتا، بے شمار خواتین، بچوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی اموات نہ ہوتی، غیرفراخدلانہ، بزدلانہ طریقہ کار اور غلط طریقہ سے مصارف کے بارے میں انہوں نے جو ااپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، وہ ہر سرکاری محکمہ میں پایا جاسکتا ہے۔ ہمیں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ خلل ہے جیسے 50 ہزار مربع فیٹ پر محیط شاپنگ مال میڈیکل کالج ڈاکٹر شیٹی اسی طرح کے انداز اور طریقہ کی وکالت کرتے ہیں۔
خلل پیدا کرنے والے ہی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتے ہیں:
نڈر و بے باک خلل پیدا کرنے والوں کو ہی کئی چیزوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن ایسے لوگ جو کام کرتے ہیں یا ایسی تخلیق کرجاتے ہیں جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا یا پہلے کمی نہیں کی گئی۔ اس عمل میں ان لوگوں نے نہ صرف کثیر دولت کمائی بلکہ روزگار کے ہزاروں مواقع بھی پیدا کئے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں اپنی عجیب و غریب صلاحیتوں کے ذریعہ دھوم مچانے والے، گائلب ڈمپلر، ہنری فورڈ، کنجیرو، تکایا تاگی، سیام والٹن، جان مئشل اینڈ مارٹن کوپر (موٹر ولا)، اسٹیو جابس ، جیف بوزیس ، مارک زکربرگ، ایلن مسک کے بارے میں سوچئے جن کے دنیا کو ایک نئی راہ پر گامزن کرنے والے اقدامات نے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کئے، ان لوگوں نے ایسے کام کئے جو اس سے پہلے نہیں کئے گئے تھے۔
ہندوستان کی سب سے اہم ضرورت ملازمتیں ہیں۔ میں نے سطور بالا میں جن شعبوں کا حوالہ دیا ہے، ان شعبوں میں اساتذہ (ٹیچرس)، لائبریرینس، آرٹ اینڈ کرافٹس گروپس ، کوچس ، لیاب ٹیکنیشین، ڈیزائنرس اور آرکیٹکٹس، سٹی پلانرس، انجینئرس، فاریسٹ گارڈس، ماہی گیر، وٹرینرینس ، دودھ کی پیداوار کرنے والے، پولٹری فارمرس وغیرہ کی ہزاروں لاکھوں ملازمتیں پیدا ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ اس طرح ہزاروں زمروں کے ایم ایس ایم ایز (چھوٹے اور متوسط پیمانے کی صنعتوں بالخصوص چھوٹے اور متوسط یونٹس زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع اور زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کی خدمات حاصل کرنے والے شعبہ میں ایک مرتبہ روزگار کے مواقع پیدا ہوجائیں تو وہ اپنے خود کا ایک نیا سلسلہ شروع کریں۔ یہ سلسلہ ملازمتوں، آمدنیوں ، دولت، آمدنی محاصل، ماحولیات کی دیکھ بھال فائن آرٹس اور ادب وغیرہ وغیرہ کیلئے چیاریٹی سپورٹ پر مشتمل ہوگا۔ لیکن کیا کوئی ملازمتیں پیدا کرنے کے بارے میں فکر مند ہے؟ مرکزی وزارت صحت نہیں جبکہ اس کے دفاتر کے باہر ایک عظیم موقع دریافت کئے جانے کا منتظر ہے اور وزارت فینانس بھی فکرمند نہیں جس نے مودی حکومت کا بجٹ برائے سال 2002-23ء پیش کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر فینانس نے اپنی 90 منٹ طویل اور 157 پیرا گراف پر مشتمل بجٹ خطاب میں لفظ Jobs (روزگار) کا تین مقامات پر ذکر کیا۔