میں زخم تو کھاتا ہوں نمائش نہیں کرتا

   

عوام … باقی کچھ بچا تو مہنگائی مارگئی
پارلیمنٹ سیشن … پھر سے فرقہ وارانہ ایجنڈہ

رشیدالدین
یکساں سیول کوڈ، آبادی کنٹرول بل، مہنگائی اور کورونا کی امکانی تیسری لہر جیسے مسائل کی گونج میں پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کا 19 جولائی سے آغاز ہوگا۔ ہر اجلاس کی طرح برسر اقتدار اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے خلاف حملہ کی تیاری اور محاذ آرائی مکمل کرلی ہے ۔ جس طرح مانسون نے بیشتر علاقوں کو جل تھل بنادیا ہے، اسی طرح پارلیمنٹ کا سیشن بھی مسائل سے پر ہوسکتا ہے۔ اترپردیش ، گجرات اور پنجاب اسمبلی انتخابات کا اثر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دکھائی دے گا ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے اپوزیشن تو دوسری طرف حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے حکومت اپنی اپنی طاقت جھونک دیں گے۔ کورونا وباء کے آغاز سے قبل لوک سبھا میں عددی طاقت کی بنیاد پر حکومت اور بی جے پی کا پلڑا بھاری تھا جبکہ راجیہ سبھا میں مشکلات کا سامنا تھا ۔ اس مرتبہ مہنگائی اور کورونا اموات روکنے میں ناکامی جیسے مسائل کے نتیجہ میں لوک سبھا میں بھی مودی حکومت کو مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایک طرف ملک میں کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ برقرار ہے، ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن اور خود وزیراعظم نریندر مودی نے احتیاطی تدابیر کی ہدایت دی ہے تو دوسری طرف لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے ماقبل کورونا صورتحال یعنی نارمل حالات کی طرح دونوں ایوانوں کے یکساں طور پر اجلاس کا اعلان کیا ۔ مودی نے تیسری لہر کا جو اندیشہ ظاہر کیا ، وہ درست ہے یا پھر اسپیکر لوک سبھا کا اقدام صحیح ہے ؟ جب تیسری لہر سے بچنے کے لئے عوام کو احتیاط کا مشورہ دیا جارہا ہے تو پھر ارکان پارلیمنٹ کے لئے احتیاط کیوں نہیں ؟ اگر ارکان کی اکثریت نے ویکسین لے لی ہے تو اس بات کی گیارنٹی نہیں کہ وہ وائرس سے محفوظ ہوگئے ۔ ویکسین صرف احتیاط ہے، بچاؤ کی ضمانت نہیں ۔ ملک میں ویکسین حاصل کرنے والے کئی افراد دوبارہ وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایسے میں جان بوجھ کر ارکان پارلیمنٹ کی زندگی کو جوکھم میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ہندوستان میں کورونا کا جو پہلا کیس تھا، وہ شخص گزشتہ دنوں پازیٹیو پایا گیا ۔ کورونا کے خطرہ کو فراموش کرتے ہوئے کرکٹ میچس شروع کرنے پر کئی کھلاڑی وائرس کا شکار ہوئے ۔ پارلیمنٹ کے معمول کے مطابق انعقاد سے ایک بھی رکن پارلیمنٹ کورونا سے متاثر ہوجائے تو کون ذمہ دار ہوگا ۔ الغرض مانسون سیشن جوکھم سے پر ہے اور ارکان کیلئے نیک تمناؤں کے اظہار کے سواء کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ دہلی ہائی کورٹ نے ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تائید کرتے ہوئے مرکز کو اس سلسلہ میں عملی اقدامات کی ہدایت دی ہے۔ یوں تو ہندوستان کی عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہے لیکن مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد عدلیہ کو بھی زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی اور بعض معاملات میں اس کا اثر بھی دیکھا گیا۔ رافیل جنگی طیاروں میں کمیشن معاملہ میں کلین چٹ اور ایودھیا میں مسجد کی اراضی مندر کے لئے حوالے کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنی آزادی اور غیرجانبداری پر خود سوال کھڑے کرتے ہوئے عوام کی نظروں میں عدلیہ کو مشکوک کردیا ۔ راجیہ سبھا کی رکنیت کیلئے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے مبصرین کے مطابق قانون کا سودا کیا۔ دو اہم فیصلوں کے عوض میں رنجن گوگوئی کو ملازمہ پر جنسی ہراسانی کے معاملہ میں کلین چٹ اور انعام کے طور پر راجیہ سبھا کی رکنیت مل گئی۔ عدلیہ میں مختلف سطح پر ابھی بھی بعض افراد ہوسکتے ہیں جو رنجن گوگوئی کی طرح انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دور وہ تھا جب سیول سرویسز سے ریٹائرڈمنٹ کے بعد آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیدار آر ایس ایس کے دامن میں پناہ لیتے تھے جس کی تازہ مثال وزیر خارجہ جئے شنکر ہیں۔ اسی طرح عدلیہ سے وابستہ افراد بھی شائد عملی سیاست میں اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں ۔ یکساں سیول کوڈ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ نے لاء کمیشن سے اس معاملہ کو رجوع کیا ، ایسے میں دہلی ہائی کورٹ نے نہ صرف نفاذ کی تائید بلکہ عملی اقدامات کی ہدایت دیتے ہوئے جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار سونپ دیا ہے۔ یکساں سیول کوڈ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے لیکن سنگھ پر یوار کا اصل نشانہ تو مسلمان ہی ہیں لہذا بی جے پی کے ایک رکن نے یکساں سیول کوڈ پر پارلیمنٹ میں خانگی ممبر بل پیش کرنے کا اعلان کردیا ۔ یو پی اور گجرات کے انتخابات کے پیش نظر یکساں سیول کوڈ اور آبادی کنٹرول پالیسی کو ہوا دے کر ہندو ووٹ متحد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے حملوں سے بچنے اور حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دی جاسکتی ہے ۔ ملک کو اگرچہ کورونا سے مکمل طور پر نجات نہیں ملی بلکہ امکانی تیسری لہر کا خطرہ برقرار ہے ، باوجود اس کے مہنگائی اور بیروزگاری عوام کیلئے کورونا سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ دو لہروں کا سامنا کرنے کے بعد عوام وائرس سے مقابلہ کے عادی ہوچکے ہیں اور دلوں میں کوئی خوف باقی نہیں رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ انسان کورونا سے بچ بھی جائے تو وہ مہنگائی کا شکار ہوکر موت کے راستہ پر چل پڑے گا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس قدر معاشی بدحالی کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے انسان کو یا تو جرائم کی طرف راغب کردیا یا پھر بھوک مری اور فاقہ سے بچنے کے لئے خودکشی پر مجبور ہورہے ہیں۔’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘ کے مصداق مودی حکومت کی پالیسیوں میں غریب اور متوسط طبقات کو کنگال بنادیا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق حکمراں کو گھر دار اور بیوی بچوں والا ہونا چاہئے کیونکہ ایسا شخص ہی عوام کے دکھ درد کو محسوس کرسکتا ہے۔ بال بچے اور کچن کی ضروریات اور گھر گرہستی کے تقاضوں سے ہم آہنگ شخص آٹے دال کے بھاؤ سے واقف رہتا ہے۔ یہاں تو آج کے حکمراں ان تمام انسانی تقاضوں سے ناآشنا ہیں، ان کو عوام سے کیا ہمدردی ہوگی ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے سینئر قائدین راہول گاندھی کو جلد شادی کی صلاح دے رہے ہیں تاکہ آنے والے دنوں میں اقتدار کا موقع ملنے پر فیصلے عوام کی ضروریات کے مطابق کئے جاسکیں۔
ملک کی توجہ حقیقی مسائل اور حکومت کی ناکامیوں سے ہٹانے کیلئے عوام کو کورونا کا خوف دلاکر ویکسین کی مہم کو واحد نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ سرکاری اور خانگی تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعہ روزانہ ٹیکہ اندازی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے تاکہ عوام کورونا کے خوف میں حکومت کی ناکامیوں کو فراموش کردیں۔ موت کا خوف دلاکر یو پی اور گجرات میں مخالف حکومت لہر کو کمزور کرنے کی تیاری ہے۔ اس قدر مہم کے باوجود ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی کا ٹیکہ اندازی میں احاطہ نہیں کیا جاسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا خود اپنے سے آیا اور اپنے سے جارہا ہے ۔ اس کی آمد اور جانے کی ترکیب اور علاج سے کوئی واقف نہیں ۔ کورونا کی دوا آج تک دریافت نہیں کی گئی اور ویکسین بھی علاج نہیں بلکہ صرف احتیاط ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے آج تک بھی کسی ویکسین کو منظوری نہیں دی بلکہ ہنگامی حالات کے طور پر تجرباتی استعمال کی اجازت دی ہے ۔ کورونا دراصل عذاب الٰہی کی ایک شکل ہے تاکہ انسانوں کو توحید کا درس دیا جائے اور خدائے واحد کی طرف لوٹنے کی ترغیب دی جائے ۔ بیماری اورشفاء دونوں خالق کائنات کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ دوا اور ویکسین کے بغیر بھی شفاء پر قادر ہے۔ اسمبلی انتخابات سے عین قبل یوگی ادتیہ ناتھ نے آبادی کنٹرول پالیسی کے نام پر نیا فرقہ وارانہ ایجنڈہ پیش کیا ہے۔ یو پی میں ہجومی تشدد کے واقعات اور دہشت گرد سرگرمیوں کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاریوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان سرگرمیوں کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما ہیں۔ جہاں تک آبادی پر قابو پانے کا سوال ہے ، اندرا گاندھی دور حکومت میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کا نعرہ دیا گیا تھا اور بعض مقامات پر جبری نسبندی بھی کی گئی لیکن نتیجہ حکومت کے زوال کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ آبادی پر قابو پانے کیلئے چین نے قانونی سازی کی تھی لیکن آج وہی چین اپنے شہریوں کو زائد بچے پیدا کرنے کی نہ صرف ترغیب دے رہا ہے بلکہ انہیں مختلف مراعات دی جارہی ہیں۔ یوگی حکومت نے دو سے زائد بچے رکھنے والوں کو سرکاری ملازمت اور سرکاری مراعات سے محرومی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دینے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ حکومت کی یہ تجویز دراصل دستور کی خلاف ورزی ہے ۔ وشوا ہندو پریشد نے یوگی حکومت کی پالیسی کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی ہے کہ اس سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا ۔ پارلیمنٹ کے رکن شفیق الرحمن برق نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر دو بچوں کی پابندی عائد کردی جائے تو پھر ہندوستان کو فوج کہاں سے ملے گی۔ آبادی پر کنٹرول تو محض ایک بہانہ ہے لیکن مسلمان اصل نشانہ ہے۔ اگر بی جے پی کو اس پالیسی پر عمل کرنے میں سنجیدگی ہے تو پھر اسے لوک سبھا اور تمام اسمبلیوں میں اپنے ارکان پر اسے نافذ کرنا چاہئے ۔ بی جے پی میں اگر ہمت ہو تو یہ عمل کرے۔ ایسے میں بی جے پی کے 60 فیصد ارکان پارلیمنٹ اور اسمبلی سبکدوش ہوجائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر شہری کو کتنے بچے ہوں اس کا فیصلہ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا اس عمل سے دور دور کا تعلق نہیں۔ جو لوگ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے ناآشنا ہے ، انہیں دوسروں کے بچوں پر کنٹرول کا کیا حق پہنچتا ہے۔ مودی ہو کہ یوگی دونوں بچوں کی اہمیت کیا جانیں گے جنہوں نے کبھی باپ کی محبت نہیں دیکھی۔ جو لوگ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں، وہ اولاد سے محرومی کا بھلا کیا احساس کریں گے ۔ مظفر وارثی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمدردیٔ احباب سے ڈرتا ہوں مظفرؔ
میں زخم تو کھاتا ہوں نمائش نہیں کرتا