میں زمانے کی شرطوں پہ جیتا نہیں

,

   

مسلمان اور عبادتگاہیں آسان نشانہ کیوں ؟
گیان واپی مسجد پر موہن بھاگوت کی نظریں
رشیدالدین
مسلمانوں کی عبادتگاہوں اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا کیا واقعی آسان ہوچکا ہے؟ ملک میں اور بھی مذاہب اور ان کی عبادتگاہیں موجود ہیں لیکن ان کے بارے میں کبھی کوئی تنازعہ پیدا نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی ، سکھ ، جین اور بدھ ازم کو ماننے والے بھی ہندوستان میں بستے ہیں، ان کی بھی عبادتگاہیں موجود ہیں لیکن فرقہ پرست طاقتوں نے کبھی کچھ نہیں کہا ۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کو ٹارگٹ کرنا معمول بن چکا ہے ۔ ہندوستان میں کئی سکھ ، راجہ ، مہاراجہ گزرے، ہوسکتا ہے عیسائی مذہب کو ماننے والوں نے بھی حکمرانی کی ہوگی اور کچھ یادگاریں ضرور تعمیر کی ہوں گی لیکن ان کی کسی یادگار عمارت اور عبادتگاہ کے بارے میں نہیں کہا جاتا کہ مندروں کو توڑ کر تعمیر کی گئیں۔ صرف مسلمان اور ان کی عبادتگاہیں نشانہ کیوں ؟ اس سوال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ عیسائی اور سکھ بھلے ہی کم تعداد میں ہیں، آبادی میں ان کا فیصد معمولی ہے لیکن وہ متحد ہیں۔ایک سکھ شخصیت نے سوشیل میڈیا پر کہا کہ مسلمان بھلے ہی آبادی میں 20 فیصد ضرور ہیں لیکن وہ 20 گروہوں میں منقسم ہیں۔ کسی سکھ عبادتگاہ کی کھدائی کی بات کی گئی تو پارلیمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ یقیناً یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ سکھوں کے اتحاد کا نتیجہ ہے کہ آپریشن بلیو اسٹار کیلئے کانگریس پارٹی آج تک سکھوں سے معذرت کر رہی ہے۔ سکھوں نے دہلی پہنچ کر لال قلعہ پر خالصتانی پرچم لہرایا اور اگر کوئی مسلمان سبز پرچم لہرانے کی کوشش کرتا تو پاکستانی پرچم کہہ کر گولیوں سے بھون دیا جاتا ۔ سکھوں نے مسلسل احتجاج کے ذریعہ مودی جیسے ڈکٹیٹر حکمراں کو زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور کیا اور مودی نے پارلیمنٹ میں کسانوں سے معذرت خواہی کی۔ کورونا وباء ، بارش ، سردی اور دھوپ کی پرواہ کئے بغیر کئی ماہ تک کسان سڑکوں پر ڈٹے رہے۔ 600 کسانوں نے جان کی قربانی دی جب کہیں جاکر کامیابی ملی اور حکومت کو جھکنا پڑا۔ شاہین باغ پر مسلمانوں نے سی اے اے ، این آر سی کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا لیکن کورونا وباء اور لاک ڈاؤن کے بہانے کسی نتیجہ کے بغیر دھرنا ختم کردیا گیا ۔ سکھوں کی طرح منزل حاصل کرنے کا جنون اور جذبہ ایثار و قربانی مسلمانوں میں نہیں تھا جس کے نتیجہ میں احتجاج بے اثر ثابت ہوا ۔ عیسائیوں کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔ سنگھ پریوار جانتا ہے کہ عیسائیوں کو چھیڑنا امریکہ ، یوروپ اور دیگر بڑی طاقتوں سے دشمنی مول لینا ہے۔ ایک پادری کو ہاتھ لگائیں تو عیسائی ممالک سے آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ عیسائیوں کو ملک کے باہر سے تحفظ حاصل ہے تو اندرون ملک دلتوں کے بڑے پیمانہ پر تبدیلیٔ مذہب سے ووٹ بینک سے محرومی کا اندیشہ ہے، لہذا بی جے پی اور سنگھ پریوار عیسائیوں کے نام پر نہیں جاتے۔ برخلاف اس کے مسلمانوں پر حملے اور عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے پر اسلامی اور عرب دنیا لاتعلق بن جاتی ہے۔ مسلم ممالک خود آپس میں متحد نہیں ، وہ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر کیوں کریں گے ۔ مسلم دنیا کی بے حسی نے مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے جس کا فائدہ جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ عیسائی ، سکھ اور دیگر چھوٹے مذاہب کو اس لئے بھی نشانہ نہیں بنایا جاتا کیونکہ ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خطرہ تو مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے دکھائی دے رہا ہے ۔ سنگھ پریوار نے مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کے لئے دیگر مذاہب کو یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ لینے کی کوشش کی کہ تمام ہندو مذہب کے زمرہ میں آتے ہیں۔ مسلمانوں کے انتشار اور اختلاف نے اہمیت کو کم کردیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ ملک میں پانی کی قیمت ہے لیکن مسلمانوں کے خون کی اہمیت نہیں۔ جب بھی کوئی مسلم قیادت جذبہ حریت کے ساتھ ابھرنے کی کوشش کرتی ہے تو جھوٹے مقدمات ان پر اور ان کے خاندان پر دائر کرتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے کردیا جاتا ہے۔ باقی قیادتوں میں بعض مفادات کی تکمیل پر قوم کا سودا کرنے تیار ہوجاتے ہیں تو بعض دوسرے خوف اور مصلحت پسندی کے اسیر بن جاتے ہیں۔ جب تک ایسی قیادتیں رہیں گی قوم ظلم و تشدد کا شکار ہوتی رہے گی۔ بے لوث اور مخلص قیادتوں کی کمی کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حال زار پر افسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ آپریشن بلیو اسٹار اور دہلی کے سکھ فسادات پر معذرت کے ساتھ ایک سکھ کو 10 سال تک وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کیا گیا ۔ ملک میں ہزاروں مسلم کش فسادات ہوئے، گجرات میں نسل کشی ہوئی لیکن مسلمانوں سے معذرت توکجا افسوس تک نہیں کیا گیا ۔ الٹا گجرات میں مرنے والوں کا کتے بچہ سے تقابل کیا گیا۔ مسلمانوں کو ظلم و ناانصافیوں سے بچنا ہو تو سکھوں سے اتحاد کا درس لینا ہوگا۔ جب تک طاقت نہیں بن جاتے ، اس وقت تک جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کیلئے فٹبال بنے رہیں گے۔ گزشتہ 8 برسوں میں حالات اس قدر بدل گئے کہ دستور ، قانون اور عدلیہ کا کوئی احترام باقی نہیں رہا۔ ہر طرف سے صرف کھدائی کے حق میں آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ فلاں مسجد کی کھدائی کرو ، فلاں درگاہ کا سروے کیا جائے اور فلاں تاریخی عمارت کی کھدائی کی جائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ایسی نامعقول آوازوں کی عدلیہ سماعت کرتے ہوئے احکامات جاری کر رہی ہے ، کسی بھی قوم کو تباہی سے دوچار کرنا ہو تو زبان ، تہذیب اور مذہبی شعائر سے محروم کیا جاتا ہے۔ یہی تو ہندوستان میں ہورہا ہے۔ عبادتگاہوں کو چھین کر مندروں میں تبدیل کرنے کا مقصد دراصل حوصلوں کو پست کرتے ہوئے غلامی کی زندگی پر مجبور کرنا ہے۔ ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کے ایجنڈہ پر عمل آوری شروع کی گئی حالانکہ 1991 ء کے عبادتگاہوں سے متعلق قانون کے تحت کسی بھی عبادتگاہ کے موقف کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ آستھا ایسی چیز ہے جس کے آگے عدلیہ اور قانون بھی بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں صرف اکثریتی فرقہ کی آستھا کا احترام ہوگا ؟ کیا مسلمانوں کی آستھا ، آستھا نہیں ہے؟ بابری مسجد کے معاملہ میں یہی کیا گیا اور گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ مسجد آستھا کے نام پر نشانہ پر ہے۔ رام کے بعد کرشن جنم بھومی کی آزادی کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ملک میں کھدائی مہم شروع کی گئی تو کوئی بھی قومی یادگار باقی نہیں رہے گی۔
گیان واپی مسجد پر جاری تنازعہ کے دوران آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے شاطرانہ انداز میں اکثریتی طبقہ کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس رام مندر تحریک میں شامل رہی اور مقصد کی تکمیل ہوچکی ہے۔ آر ایس ایس کی جانب سے اب مزید کوئی مہم نہیں چلائی جائے گی ۔ موہن بھاگوت نے بطور خاص گیان واپی مسجد کا حوالہ دیا اور کہا کہ آر ایس ایس گیان واپی کی بحالی کے لئے کوئی مہم چلانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ موہن بھاگوت اگر صرف یہیں پر رک جاتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے گیان واپی تنازعہ کو ہوا دینے کی کوشش کی کہ تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور مندروں کو توڑ کر مساجد کی تعمیر ایک حقیقت ہے جس پر عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ بھاگوت نے غیر محسوس طریقہ سے موجودہ تنازعہ کی تائید کی اور کہا کہ فریقین کو عدالت کا فیصلہ قبول کرنا چاہئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موہن بھاگوت گیان واپی مسجد کے معاملہ میں عدالت کے فیصلہ سے واقف ہیں؟ جس طرح بابری مسجد کو رام مندر کے حوالے کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا ، شائد گیان واپی کیلئے بھی اسی طرح کا فیصلہ آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ موہن بھاگوت نے بالواسطہ طور پر ہندوؤں کو تیار رہنے کا مشورہ دیا۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں متھرا اور کاشی پہلے سے موجود ہیں۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ نے رام مندر تعمیر کے دوسرے مرحلہ کا آغاز کرتے ہوئے بابر پر مندر توڑنے کا الزام عائد کیا۔ عدالت میں یہ الزام ثابت نہیں کیا جاسکا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، باوجود اس کے چیف منسٹر کی حیثیت سے دوبارہ الزام کو دہرانا دراصل اکثریتی طبقہ کے جذبات کو مشتعل کرنا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں سے مساجد کے خلاف آوازیں تیز ہورہی ہیں۔ چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا شرما نے مسلمانوں کو تین شادیوں سے روکنے قانون سازی کا اشارہ دیا۔ شریعت کے خلاف قانون سازی سے قبل چیف منسٹر آسام کو جاننا چاہئے کہ شریعت میں تین نہیں بلکہ چار شادیوں کی اجازت ہے۔ مسلمانوں اور شریعت سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ مکمل معلومات کئے بغیر ہی بیان بازی کی جارہی ہے ۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی بے حسی مزید مساجد سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
جبر کا زہر کچھ بھی ہو پیتا نہیں
میں زمانے کی شرطوں پہ جیتا نہیں