نئی تعلیمی پالیسی ‘ احتیاط ضروری

   

مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا ہے ۔ نئی پالیسی کے مطابق ملک کے تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ اس پالیسی کے مطابق جہاں مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کو اہمیت دی گئی ہے وہیں ڈگری کورس کو چار سال کرنے کا بھی فیصلہ شامل ہے ۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ پیمانے پر بنیادی تعلیمی ڈھانچے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ تعلیم سے متعلق وزارت کا نام بھی وزارت فروغ انسانی وسائل سے بدل کر ایجوکیشن منسٹری رکھ دیا گیا ہے ۔یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے ۔ مرکزی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ایک بار بہت زیادہ واضح ہور ہی ہے کہ اس پالیسی پر عمل آوری کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ جو مقاصد اس تبدیلی کے تعلق سے ظاہر کئے جا رہے ہیں ان کی تکمیل کا انحصار اسی بات پر ہے کہ اس پالیسی پر عمل آوری کس ڈھنگ سے کی جاتی ہے اور کس حد تک کامیاب اور موثر انداز میں یہ عمل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کی نیت اورا س کے عزائم کے تعلق سے بھی احتیاط اور چوکسی کی ضرورت ہے کیونکہ ایک بات ضرور واضح ہے کہ جس وقت سے مرکز میں نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی نے حکومت بنائی ہے اس وقت سے مسلسل تعلیمی نظام کو ایک مخصوص نظریہ کے حق میں ڈھالنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے اور ان کا احترام کرنے کی بجائے انہیں کچلنے کی منصوبہ بندی پر عمل ہورہا تھا ۔ بالواسطہ طور پر ملک کے تعلیمی نظام کو سنگھ کے نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ اس صورتحال میں جبکہ مرکزی حکومت نے تعلیمی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کردیا ہے تو اس کے پس پردہ عوامل پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے کہ حکومت تعلیمی پالیسی میں تبدیلی کے نام پر اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری میں نہ جٹ جائے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے موجودہ تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کارآمد ہونے کی بجائے اس سے طلبا اور تعلیمی نظام کو نقصان زیادہ ہونے کے اندیشوں کو تقویت مل جائے گی ۔

جہاں تک حکومت کا سوال ہے اسے چاہئے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں جو مقاصد طئے گئے ہیں ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے پالیسی پر عمل آوری کو یقینی بنائے ۔ اس کی آڑ میں دیگر مقاصد کی تکمیل ملک کے تعلیمی ڈھانچہ کیلئے مثبت نہیں ہوگی ۔ حکومت نے جو مواقع طلبا کو فراہم کرنے کا اراردہ ظاہر کیا ہے وہ ایک اچھی علامت ضرور ہے اور اس سے نوجوانوںکو اپنے تعلیمی کیرئیر کے تعلق سے فیصلہ کرنے اور کورس کا انتخاب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اکیڈیمک بینک آف کریڈٹ کے قیام کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ بھی ایک اچھا قدم ہوسکتا ہے اور اس سے تعلیم کو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔ حکومت کا مقصد یہی ہونا چاہئے کہ ملک کا تعلیمی نظام کم از کم ایشیا کے تیزی سے ترقی پاتے ہوئے معاشروں کے موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور ہندوستانی طلبا کیلئے بھی کیرئیر کو بہتر سے مزید بہتر بنانے کے مواقع دستیاب ہوں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی نظام تعلیم کو عالمی سطح کے معیارات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے بھی گنجائش فراہم ہوسکتی ہے لیکن اس کیلئے بھی شرط یہی ہے کہ جن مقاصد کا اعلان کیا گیا ہے انہیں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئی پالیسی پر موثر ڈھنگ سے عمل آوری کو یقینی بنایا جائے ۔ نئی پالیسی کے تحت نظام تعلیم کو زیادہ مشکلات کی بجائے سہل بنانے پر بھی توجہ دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے اور یہ بھی ایک خوش آئند قدم ہوسکتا ہے ۔

مرکزی حکومت کی جانب سے معلنہ نئی تعلیمی پالیسی میں جہاں ہندوستان کی یونیورسٹیز اور جامعات کیلئے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے وہیں عالمی معیار کی بیرونی جامعات کے ہندوستان میں داخلہ کے امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ تاہم اس پہلو پر یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان جامعات میں جو تعلیم ہو اور جو ڈگریاں ہوں وہ ہندوستانی طلبا اور ہندوستانی روایات کی مطابقت میں ہونی چاہئیں۔ ان کیلئے عالمی معیار ہی واحد شرط ہونے کی بجائے مقامی تقاضوں کی تکمیل کو بھی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے ۔ نئی تعلیمی پالیسی کے ضمن میں حکومت کے اقدامات پر مسلسل نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ نئی پالیسی کے نام پر ملک کے نظام تعلیم کو ایک مخصوص سوچ اور نہج پر لیجانے کی کوششیں نہ ہونی پائیں اور اگر ہوتی ہیں تو کامیاب نہ ہونی پائیں۔