نائیٹ کرفیو یا لاک ڈاون پر حکومت 48 گھنٹے میں فیصلہ کرے

   

٭ 22 اپریل کو عدالت سے سخت احکام کی اجرائی کا انتباہ
٭ صورتحال سے نمٹنے حکومت کے اقدامات کی تفصیل بھی طلب
٭ تلنگانہ ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس کی برہمی

حیدرآباد۔تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکومت کو انتباہ دیا کہ اگر حکومت رات کے کرفیو اور ہفتہ اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن پر اندرون 48گھنٹہ فیصلہ نہ کرے تو ہائی کورٹ فیصلہ صادر کریگا۔چیف جسٹس جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس بی وجئے سین ریڈی کی مشترکہ بنچ نے کورونا پر سماعت کے دوران حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کورونا مریضوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے کیا اقدامات کررہی ہے!انہوں نے کہا کہ حکومت اگر اندرون 48 گھنٹہ رات کے کرفیو اور ہفتہ کے آخری ایام میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہ کرے تو 22 اپریل کو عدالت سے سخت احکام جاری کئے جائیں گے اور اندرون تین یوم حکومت کو فیصلہ کرکے عدالت کو واقف کروانا چاہئے ۔ ان احکامات پر ایڈوکیٹ جنرل نے تین دن کے وقت کو ناکافی قرار دیا جس پر عدالت نے کہا کہ تین دن میں جو حکومت کرسکتی ہے کرے باقی ہم کر لیں گے۔ چیف جسٹس ہیما کوہلی نے کہا کہ جب ملک کا دارالحکومت لاک ڈاؤن میں جا سکتا ہے تو تلنگانہ میں اقدامات کیوں نہیں کئے جاسکتے۔ ہائی کورٹ میں صبح مقدمہ کی سماعت کے آغاز کے ساتھ ہی عدالت نے برہمی کا اظہار کرکے لنچ کے بعد سماعت کا اعلان کیا اور محکمہ صحت کو ہدایت دی کہ وہ تمام تفصیلات اور اب تک کے اقدامات سے عدالت کو واقف کروائے۔ چیف جسٹس نے لنچ کے بعد دوسرے مرحلہ کی سماعت کے دوران کہا کہ کورونا پر حکومت جو کچھ جانتی ہے ان تمام تفصیلات سے آگاہ رہنا ہر شہری کا حق ہے لیکن کیا معلومات شہریوں کو فراہم کی جا رہی ہیں! ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ حکومت کورونا صورتحال پر نظر رکھی ہے جس پر جسٹس کوہلی نے کہا کہ اب نگرانی کی نہیں عمل کی ضرورت ہے اور حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے عدالت جاننا چاہتی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ سیاسی ریالیوں اور جلسوں میں وباء کو روکنے کے علاوہ شادی بیاہ میں تعداد کو محدود کرنے اور جنازوں میں محدود تعداد کو یقینی بنانے کیا اقدامات کئے گئے ؟ انہوں نے کہا کہ آر ٹی پی سی آر معائنوں کی رپورٹ اندرون 24 گھنٹہ جاری کی جائے اور عدالت کو واقف کروایا جائے کہ آرٹی پی سی آر معائنوں کی تعداد کتنی ہے اور سرکاری طور پر کتنے معائنہ کئے گئے ۔ پرنسپل سیکریٹری محکمہ صحت مسٹر سیدعلی مرتضیٰ رضوی بھی موجود تھے۔ عدالت نے ڈائرکٹر صحت سرینواس راؤ پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ 23 مئی کو مقدمہ کی سماعت کے دوران وہ حاضر عدالت رہیں۔ ڈویژن بنچ نے محکمہ صحت سے استفسار کیا کہ وارڈ واری اساس پر نوڈل آفیسر کا تقرر کیوں نہیں کیا گیا ؟ عدالت نے کہا کہ کسی گھر میں ایک مریض کی توثیق ہوتی ہے تو سارا خاندان الجھن کا شکار ہورہا ہے لیکن حکومت سے ان کی الجھن کو دور کرنے اور انہیں طبی امداد کی فراہمی کیلئے وارڈ واری اساس پر عہدیدار کا تقرر نہ کیاجانا افسوسناک ہے۔