امیتابھ تیواری
دہلی اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے مطابق 5 فروری کو رائے دہی ہوگی اور 8 فروری کو نتیجہ کا اعلان کیا جائے گا۔ بہرحال الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اس اعلان سے بہت پہلے ہی دہلی کے لئے جنگ شدت اختیار کرگئی۔ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی میں ہر روز پوسٹروں کی جنگ جاری ہے جبکہ کانگریس اور بی جے پی تمام نشستوں کے لئے اپنے امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دینے میں مصروف ہیں (ہوسکتا ہے کہ یہ سطور پڑھنے تک تمام پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کردیا ہو) ۔ جہاں تک دہلی کی حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی کا سوال ہے اس نے اپنے 20 ارکان اسمبلی کو اس مرتبہ اپنا امیدوار نہیں بنایا ۔ ایک بات ضرور ہیکہ تین دہوں کے بعد بی جے پی دہلی میں اقتدار پر آنے بے چین ہے اور اس کے لئے اس نے پوری تیاری کرلی ہے۔ اس کے لیڈران بار بار عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اس معاملہ میں کالکا جی سے بی جے پی امیدوار رمیش بدھوری کے بیانات مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ بہرحال ایک طرف عام آدمی پارٹی ہیٹ ٹرک کی خواہاں ہے تو دوسری طرف بی جے پی 30 سال بعد اقتدار پر واپسی کے لئے جان توڑ کوشش کررہی ہے جبکہ کانگریس بھی اپنا اکاؤنٹ کھولنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عام آدمی پارٹی اس مرتبہ اپنے قیام سے اب تک کی سب سے بڑی جنگ لڑرہی ہے۔ وہ دہلی میں 10 برسوں سے حکومت کررہی ہے اور وہاں حکومت مخالف لہر کا پایا جانا فطری بات ہے۔ اس کے سربراہ اور سابق چیف منسٹر اروند کجریوال سے لے کر کئی اہم قائدین کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ موجودہ حالات میں عام آدمی پارٹی نے رائے دہندوں کے لئے ایک ایک پُرکشش ترغیبات کا اعلان کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دہلی میں تیسری مرتبہ بھی اس کا اقتدار برقرار رہنا ہے تو رائے دہندوں کے لئے اعلان کردہ کئی ترغیبات اور مراعات سے متعلق وعدوں پر عمل آوری کی جائے گی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے چیالنج کا مقابلہ کرنے کے لئے نرم ہندتوا کی حکمت عملی اپنائی، اس کی قیادت کا دعویٰ ہیکہ ہم بی جے پی قائدین سے کم ہندو نہیں ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت عام آدمی پارٹی نے پجاری گرانتمی سمان یوجنا کا اعلان کیا ہے۔ اس اسکیم کا مقصد مندروں کے پجاریوں اور گردواروں کے گرنتھیوں کو ماہانہ 18000 اعزازیہ فراہم کرنا ہے۔ عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہیکہ یہ اسکیم ملک بھر میں اپنی طرز کی پہلی اور منفرد اسکیم ہے۔ بی جے پی اور اس کے حامی کانگریس کو مسلمانوں کی دوست اور ہندوؤں کی دشمن پارٹی کہتے ہیں، چنانچہ عام آدمی پارٹی کسی بھی حال میں خود کی اقلیتوں کی خوشامد کرنے والی پارٹی کے طور پر پہچان یا شناخت بنانا نہیں چاہتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کجریوال کی پہلی میعاد میں ان کی حکومت کی جو کارکردگی رہی اس کے برعکس دوسری مکمل میعاد (2020-2025) میں اس کا مظاہرہ کمزور رہا۔ یہی وجہ ہیکہ عام آدمی پارٹی نرم ہندتوا کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ جیسے ہی اروند کجریوال کی پارٹی نے ہندو پجاریوں کے لئے ماہانہ 18 ہزار اعزازیہ دینے کا وعدہ کیا ہے بی جے پی میں ہلچل مچ گئی۔ اب بی جے پی پر ہندو پنڈتوں (پجاریوں) کے لئے بھی اپنے انتخابی منشور میں ایسی ہی اسکیم کا اعلان کرنے دباؤ میں آگئی ہے۔ بی جے پی کا یہ الزام ہیکہ مندروں کو منہدم کرنے سے متعلق عام آدمی پارٹی کے دعوے غلط اور بے بنیاد ہیں۔ کانگریس نے ماضی میں اس طرح کی اپنی حکمت عملی اپنائی تھی جس پر اسے محدود کامیابی ملی تھی۔ آپ کو بتادیں کہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی 83 فیصد مسلمانوں اور 67 فیصد سکھوں نے ووٹ دیا تھا ایسے میں اس پارٹی کے اقلیتی ووٹ مستحکم ہوں گے۔
کجریوال نے اس بات کا اعتراف کیا ہیکہ عام آدمی پارٹی اپنے کئی وعدوں کو وفا نہ کرسکی خاص طور پر فضائی آلودگی کو کم کرنے، سڑکیں بچھانے اور جمنا کی صفائی جیسے وعدے پورے نہ ہوسکے۔ ہاں عاپ نے خواتین کو مفت بس سفر کی سہولت فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا، کوئی اور اہمیت کی حامل اسکیم پر عمل آوری نہیں کی گئی۔ پارٹی کو اپنی دوسری میعاد کے آخر میں سیاسی و قانونی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ اس کے کئی وزراء بشمول کجریوال کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا جن میں خود کجریوال بھی شامل ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہلی میں انتظامیہ شدید متاثر ہوا۔ ہاں ایک اور بات میونسپل کارپوریشن آف دہلی کے انتخابات (2022) میں کامیابی نے بھی حکومت مخالف لہر پیدا کی کیونکہ بلدی مسائل پر عام آدمی پارٹی بی جے پی کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتی۔ دہلی میں سیوریج کے مسائل ہیں اور صاف صفائی کا فقدان بھی پایا جاتا ہے۔ عاپ یہ حقیقت جان چکی ہے کہ اسے سرکاری اسکیمات سے استفادہ کرنے والوں اور دہلی کے شہریوں کی تائید سے محرومی کا جوکھم پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اروند کجریوال کی پارٹی نرم ہندوتوا کی پالیسی ؍ حکمت عملی احتیار کررہی ہے جبکہ بی جے پی اس کا جواب یہ کہتے ہوئے دے رہی ہیکہ وہی حقیقی ہندوتوا پارٹی ہے اور اس طرح وہ حکومت مخالف لہر کو مزید ہوا دے کر اس کا پورا پورا استحصال کرسکتی ہے چونکہ دہلی اسمبلی انتخابات میں عہدہ چیف منسٹری کے لئے بی جے پی کا کوئی چہرہ نہیں ہے۔ ایسے میں وہ مقامی مسائل پر حلقہ بہ حلقہ توجہ مرکوز کرسکتی ہے۔