نریندر مودی کی اشتعال انگیزی تلنگانہ تک پہنچ گئی، بی جے پی آئی ٹی سیل سرگرم

   

( لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزاء پائی )
نفرت کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی تیاری، 10 لوک سبھا حلقوں میں ویڈیو وائرل، مسلمان اور سیکولر رائے دہندے چوکس رہیں، کانگریس میں بی جے پی سے مقابلہ کی طاقت
حیدرآباد۔/24 اپریل، ( سیاست نیوز) لوک سبھا الیکشن 2024 کی انتخابی مہم دن بہ دن فرقہ واریت اور نفرت پر مبنی مسائل کا شکار ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے ملک کا ہر باشعور شہری واقف ہوچکا ہے لیکن موجودہ حالات میں صرف باخبر ہونے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ نفرت کی سیاست کو شکست دینے کیلئے ہر رائے دہندہ کو اپنا رول ادا کرنا پڑے گا۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں انتخابی ریالیوں سے خطاب کرتے ہوئے جس انداز میں اشتعال انگیزی اور مذاہب کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے یہ ملک کی سالمیت اور یکجہتی کیلئے خطرہ سے کم نہیں۔ وزیر اعظم اس بات کو فراموش کررہے ہیں کہ انہوں نے گذشتہ دس برسوں میں دو مرتبہ دستور کی پاسداری اور سماج کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کا خدا کے نام پر حلف لیا تھا۔ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز شخصیت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ حقیر سے سیاسی فائدہ کیلئے مذاہب کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ وزیر اعظم ووٹ حاصل کرنے کیلئے کانگریس پر جو بھی الزام تراشی کرتے ہوئے ہندو سماج کو خوف میں مبتلاء کرنے کی کوشش کررہے ہیں اُن میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے۔ کانگریس کے انتخابی منشور کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے نریندر مودی ہندو سماج کو ڈرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کانگریس برسراقتدار آنے پر اُن کے اثاثہ جات محفوظ نہیں رہیں گے اور مسلمانوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ پہلے مرحلہ کے چناؤ میں بی جے پی کیلئے مایوس کن خبریں رہیں اور نریندر مودی کو اندیشہ ہے کہ اگر یہی رجحان رہا تو آئندہ 6 مرحلوں میں بی جے پی کو بھاری نقصان ہوگا۔ حکومت کے کارناموں پر جملہ بازی اور رام مندر کی تعمیر کو لے کر جس انداز میں مہم شروع کی گئی تھی اس کا اثر پہلے مرحلہ کی رائے دہی میں دکھائی نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ اقتدار کا خواب چکنا چور ہوتا ہوا دیکھنے والے نریندر مودی نے اپنے عہدہ اور مقام کی پرواہ کئے بغیر مسلمانوں کا نام لے کر سیاسی دکان چمکانے کا آغاز کردیا ہے۔ ایک مرتبہ نہیں نریندر مودی نے کئی مواقع پر الگ الگ انداز اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور ہندو اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں اور کانگریس سے چوکس رہنے کا مشورہ دیا۔ سماج کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کی یہ مہم صرف راجستھان تک محدود نہیں رہی بلکہ نریندر مودی کے نشانہ پر سارا ملک ہے اور وہ راجستھان سے ملک کے تمام ہندو رائے دہندوں سے مخاطب ہیں۔ موجودہ حالات میں کانگریس سے چوکسی نہیں بلکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار سے عوام کو چوکس رہنا چاہیئے۔ بی جے پی جس نے شمالی ہند میں کمزور مظاہرہ کے امکانات کے تحت جنوب پر توجہ مرکوزکی ہے اُس نے وزیر اعظم کی نفرت انگیز مہم کو تلنگانہ کے گھر گھر تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ کرناٹک کے بعد بی جے پی کو تلنگانہ سے امید ہے کہ یہاں 17 لوک سبھا حلقوں میں کم از کم 8 تا 10 پر کامیابی حاصل ہوگی جو مستقبل میں تلنگانہ میں بی جے پی حکومت کے قیام کی بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔ تلنگانہ میں 13 مئی کو رائے دہی مقرر ہے اور بی جے پی کا آئی ٹی سیل متحرک ہوچکا ہے جو سوشیل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس کے ذریعہ نریندر مودی کی اشتعال انگیزی پر مبنی ویڈیوز کو تیزی کے ساتھ وائرل کررہا ہے تاکہ کوئی بھی ہندو خاندان وزیر اعظم کے پیام سے محروم نہ رہے۔ اطلاعات کے مطابق تلنگانہ کے 10 حلقہ جات جہاں بی جے پی نے کامیابی کا نشانہ مقرر کیا ہے وہاں بوتھ سطح پر بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں نریندر مودی کی تقاریر کے ویڈیوز وائرل کئے جارہے ہیں۔ پارٹی کے ہر کارکن کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ کم از کم 50 افراد تک وزیر اعظم کی تقاریر کو پہنچائیں تاکہ ہر لوک سبھا حلقہ میں 90 فیصد ہندو رائے دہندوں کا احاطہ کیا جاسکے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں مودی کے نفرت کے پیام کو عام کرنے کی نگرانی پارٹی کا قومی آئی ٹی سیل کررہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق لوک سبھا حلقہ جات نظام آباد، عادل آباد، بھونگیر، چیوڑلہ، ملکاجگری، ظہیرآباد، سکندرآباد، کریم نگر، ورنگل اور محبوب نگر میں آئی ٹی سیل کے ذریعہ ہندو رائے دہندوں تک وزیر اعظم کی تقریر کے ویڈیو کلپس وائرل کئے جارہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کے کارکن جن میں آر ایس ایس شامل ہے گھر گھر پہنچ کر نفرت کے پیام کی کچھ اس طرح تشہیر کررہے ہیں جیسے یہ ملک کے مفاد میں ہو۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کی سرگرمیاں سیکولر ذہنیت رکھنے والے رائے دہندوں میں تشویش کا باعث ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف مسلم جماعتوں اور تنظیموں بلکہ تمام سیکولر اور جمہوریت پسند رضاکارانہ اداروں اور جہد کاروں کو فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف کمربستہ ہونا پڑے گا۔ تلنگانہ کے مسلم رائے دہندے خاص طور پر چوکس ہوجائیں کیونکہ ان کی رائے دہی کے معاملہ میں کوتاہی ’’ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزاء پائی ‘‘ کے مصداق ہوگی اور اگر اس مرتبہ رائے دہی کے معاملہ میں سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو مبصرین کے مطابق 2024 کا الیکشن ملک کا آخری الیکشن ثابت ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کو تلنگانہ میں 10 نشستوں پر کامیابی کے نشانہ سے بہرحال روکنا ہوگا اور موجودہ حالات میں صرف کانگریس پارٹی ہی بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ ووٹ کے استعمال میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں۔ کانگریس اور بی آر ایس میں اگر سیکولر ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو بی جے پی کو راست فائدہ پہنچے گا لہذا ہر لوک سبھا حلقہ میں مسلمانوں کو ایسے امیدوار کی تائید متحدہ طور پر کرنی چاہیئے جو بی جے پی کو شکست دینے کی اہلیت اور طاقت رکھتا ہو۔1