نظافت، تکبر کی علامت نہیں

   

مرسل : ابوزہیر نظامی

قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ’’ان سے کہو کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے جو زیب و زینت نکالی ہے اور جو پاک چیزیں پیدا کی ہیں، وہ کس نے حرام کردیں۔ کہو یہ تو ایمان والوں کے لئے ہیں اور قیامت کے دن تو خاص ان ہی کے لئے ہوں گی، اس طرح ہم اپنی نشانیاں علم والوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۳۲)
گوکہ یہاں زینت سے مراد خاص طورپر لباس ہی ہے، لیکن یہ لفظ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس میں بدن کی اچھی طرح پاکی، صفائی، سواری کا اچھا ہونا اور زیورات وغیرہ کا استعمال بھی آتا ہے۔ البتہ یہ آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ جو چیزیں حرام ہیں، وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ اس سے ایک تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان اس دنیا میں نعمتوں کے استعمال میں آزاد نہیں ہے، بلکہ خدا کے قائم کردہ حلال و حرام کے حدود کا پابند ہے۔ دوسرے اس لباس اور زیب و زینت کے بارے میں بہت سے راہبانہ تصورات کی تردید ہوتی ہے۔ کبھی کبھی آدمی اپنی بدذوقی اور بد سلیقگی کو خدا کے دین کی طرف منسوب کرکے مطمئن ہو جاتا ہے، حالانکہ خدا کے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسلام نے اس ذہن کی بھی اصلاح کی کہ لباس کا اہتمام اور اس کی نفاست و نظافت تواضع کے خلاف ہے اور اس سے تکبر جھلکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات لباس اور وضع قطع سے بھی تکبر و نخوت ٹپکتی ہے، اس سے بچنا ضروری ہے، لیکن نظافت اور نفاست کو تکبر کا مظاہرہ نہیں کہا جاسکتا۔ تکبر اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ برائی ہے۔ اس کے برعکس نفاست و نظافت میں اس کے حسن و جمال کا پرتو پایا جاتا ہے، جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بال رکھے، وہ ان کا احترام کرے‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان)
بال سے آدمی کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نگہداشت اور پاکی و صفائی کا اہتمام ہو، انھیں سلیقہ کے ساتھ رکھا جائے۔ منتشر اور پراگندہ بالوں سے سارا حسن ختم ہو جاتا ہے اور شکل و صورت مکروہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’میرے سر کے بال کافی لمبے ہیں، شانہ تک پہنچ رہے ہیں، کیا میں اس میں کنگھی کروں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ہاں کنگھی کرو اور بالوں کا اکرام و احترام کرو‘‘۔ روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ کے اس ارشاد کی وجہ سے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بسا اوقات دن میں دو بار تیل استعمال کرتے تھے‘‘۔ (ابوداؤد)