نفرتوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ہمیں

,

   

فلائیٹ میں بھی فرقہ پرستی … مسلم مسافر کی ایمانی حرارت
مسجد میں پوجا کی اجازت… جج کو یوگی کا تحفہ

رشیدالدین
حیدرآباد سے لکھنو کی فلائیٹ میں مسافرین اپنی نشستیں سنبھال رہے تھے۔ ایر ہوسٹس مسافرین کو ان کی الاٹ کردہ نشستوں تک رہنمائی کر رہی تھیں۔ مسافرین میں ایک تاجر میں تھے جو بزنس کے سلسلہ میں اکثر حیدرآباد کا سفر کرتے ہیں۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس ٹپ ٹاپ دکھائی دینے والے بزنسمین نے اپنی نشست سنبھال لی اور ان کے بازو کی نشست کا مسافر ابھی نہیں پہنچا تھا ۔ نشست سنبھالنے کے بعد طیارہ کے اڑان بھرنے کا ہر کسی کو انتظار ہوتا ہے ۔ اسی طرح سے یہ بزنسمین بھی اطمینان میں تھے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ میں وہ اپنی منزل پہنچ جائیں گے۔ کچھ مسافرین اپنا سامان رکھنے میں تو کچھ نشستوں کی تلاش میں تھے۔ ہر ایک مسافر کو وہ اس امید سے دیکھتے کہ پڑوسی آرہا ہے ۔ کافی دیر تک پڑوسی کے انتظار کے بعد بزنسمین نے آرام کی خاطر آنکھیں بند کرلیں کہ اچانک ایک آواز گونجی کہ میں یہاں نہیں بیٹھ سکتا۔ بزنسمین چونک کر اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ان کے قریب کھڑا ہے اور نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ایر ہوسٹس سے کہہ رہا ہے کہ میں ان کے بازو نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ یہ دہشت گرد ہیں۔ لفظ دہشت گرد سنتے ہی مسافرین اور فلائیٹ اسٹاف میں ہلچل مچ گئی اور ہر کوئی حقیقی دہشت گرد کے تصور سے خوفزدہ تھا۔ فلائیٹ اسٹاف اور مسافرین کو بزنسمین کے احوال دیکھ کر جب اطمینان ہوگیا تو مسافر سے پوچھا کہ آپ کو اس نشست پر بیٹھنے میں اعتراض کیوں ہیں۔ وہ شخص بار بار دہرا رہا تھا کہ میں دہشت گرد کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ بار بار دہشت گرد کا لفظ سن کر ظاہر ہے کہ بزنسمین کا برا حال ہوا اور وہ انکساری کے ساتھ صرف یہی کہہ رہے تھے کہ میں ایک بزنسمین ہوں ۔ دہشت گرد کا لیبل لگانے والا شخص کوئی نیم پاگل یا ذہنی طور پر معذور نہیں تھا بلکہ تعلیم یافتہ دکھائی دے رہا تھا ۔ فلائیٹ اسٹاف نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔ آخرکار اسے بزنس کلاس کی خالی نشست پر جگہ دی گئی اور فلائیٹ نے اڑان بھری۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر بزنسمین میں ایسا کیا تھا کہ مقابل کو دہشت گرد دکھائی دیا۔ دراصل بزنس مین مسلمان اور چہرہ پر داڑھی تھی۔ اس کے آگے مزید کچھ کہنے کی شائد ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ ہر کوئی ملک میں جاری نفرت کی مہم سے واقف ہے۔ مذہبی جنون کا شکار ایک شخص مسلم تاجر کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر رہا تھا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ دوسرے مسافرین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں دہشت گرد کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں، آپ میری نشست پر بیٹھ جائیں۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد قارئین کو آگاہ کرنا ہے کہ ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کس حد تک سماج کے تعلیم یافتہ اور دولتمند افراد کو اپنا شکار بناچکی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ فلائیٹ میں دوسرے مسلم مسافر نہیں تھے لیکن لفظ دہشت گرد سننے کے بعد جو ماحول پیدا ہوا تھا ، اس میں دیگر مسلم مسافرین نے خاموشی میں عافیت محسوس کی۔ مسلمان اور وہ بھی داڑھی کے ساتھ ہو کوئی جرم نہیں ہے۔ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی ترویج کا حق دیا ہے۔ واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کو کس موڑ پر کھڑا کردیا ہے۔ سماج میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت اور زہر گھولنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ نفرت کی سیاست کا شکار اس واقعہ کو پیش کرنے کا مقصد قارئین اور بالخصوص اقلیتوں کے حوصلے پست کرنا نہیں ہے بلکہ اس واقعہ سے ہمت اور حوصلہ ملتا ہے کہ کس طرح نفرت کے ہجوم میں بھی ایک باایمان شخص نے ہمت اور حوصلہ کے ساتھ نڈر ہوکر حالات کا سامنا کیا ہے ۔ سارے سفر کے دوران وہ مسلمان بزنسمین مکمل اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھا رہا اور اپنے رویہ سے محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ خوفزدہ ہیں۔ حالات سے متاثر ہونے کے بجائے بزنسمین نے بردباری اور اطمینان کا جو مظاہرہ کیا ، اس کا مسافرین پر اثر پڑا۔ ایمانی حرارت اگر زندہ ہو تو نامساعد حالات کا بے خوف ہوکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ فلائیٹ جب اپنی منزل پر پہنچی تو کئی مسافرین مسلمان بزنسمین کے قریب پہنچے اور صبر و تحمل کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ کئی مسافرین نے مذہبی جنون کا شکار شخص کے رویہ پر ناراضگی جتائی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ فلائیٹ اسٹاف نے بھی مسافر سے معذرت خواہی کی ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ مسلمان کو دہشت گرد کہنے والا شخص سر جھکاکر آنکھ ملانے کی جرات سے محروم اس انداز میں جارہا تھا کہ جیسے وہ شرمندہ ہی نہیں بلکہ شکست تسلیم کرچکا ہے۔ کہنا کا مقصد یہ ہے کہ نامساعد حالات سے ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے صبر ، استقلال اور حکمت سے مقابلہ کیا جائے تو مخالف کو شکست اور شرمندگی ہوگی۔ یہی چیز اسلام کا صحیح پیام غیروں تک پہنچانے کا سبب بنے گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں کردار سے پھیلا ہے۔ ملک میں اسلامی کردار کے ساتھ ضر ورت پڑ نے پر مزاحمت کے ذریعہ ہی حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ قوم کو ناامیدی سے ابھرنا ہوگا کیونکہ قانون فطرت بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وقت اور دنوں کو لوگوں کے درمیان تبدیل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار نے سیاسی فائدہ کیلئے ملک کو نفرت اور فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا ہے ۔ 2014 میں پہلی مرتبہ برسر اقتدار آنے کے بعد بی جے پی نے سماج کو مذہب ، زبان اور علاقہ کے نام پر تقسیم کرتے ہوئے ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے پر توجہ دی ہے ۔ وقفہ وقفہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم کے ذریعہ عام ذہنوں میں یہ تاثر دیا گیا کہ مسلمان ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ شریعت میں مداخلت تو عام بات ہوچکی ہے اور اب عبادتگاہیں بھی خطرہ میں دکھائی دے رہی ہیں۔ کسی بھی عبادت گاہ کو عدالت کے ذریعہ مندر قرار دینے کا فیشن بن چکا ہے ۔ بابری مسجد کی اراضی سپریم کورٹ کے ذریعہ حاصل کرنے کے بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ وارانسی کی گیان واپی مسجد کے بعد متھرا کی عیدگاہ پر مندر کا دعویٰ پیش کرتے ہوئے عدالت کی مدد حاصل کی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی بارگاہ کے بارے میں توہین آمیز بیانات دیئے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں تمام اہم مساجد اور عیدگاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ مستقبل میں یوگی ادتیہ ناتھ کے لئے وزارت عظمٰی پر فائز ہونے کا راستہ ہموار ہوجائے۔ اترپردیش میں ٹیلے والی مسجد پر نئی دعویداری پیش کی گئی اور عدالت نے مسلم فریق کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مندر کی دعویداری پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے ۔ گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا شروع ہوچکی ہے اور اب مسجد میں نماز کی ادائیگی کو روکنے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ۔ کوئی عجب نہیں کہ عدالت کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کی کوشش کر ے گی۔ گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت دینے والے جج کرشن وشویش کو ٹھیک ایک ماہ بعد اہم عہدہ کا تحفہ دیا گیا ہے ۔ جج نے وظیفہ پر سبکدوشی کے آخری دن 31 جنوری کو تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت دی تھی اور ٹھیک ایک ماہ بعد یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے انہیں سرکاری یونیورسٹی کا لوک پال مقرر کیاہے۔ بابری مسجد کی اراضی مندر کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے تین ججس کو بھی بطور انعام اہم عہدے دیئے جاچکے ہیں۔ عہدوں کی لالچ اور ملک میں ہندو راشٹر کے قیام کے جذبہ کے تحت دیگر عدالتوں میں بھی مساجد کے خلاف فیصلے کوئی عجب نہیں۔ ملک میں جمہوریت اور سیکولرازم کا عملاً صفایا کردیا گیا اور بی جے پی حکومت دستور میں تبدیلی کی تیاری کر رہی ہے۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تلوار لٹک رہی ہے اور لوک سبھا الیکشن سے قبل مودی حکومت اس بارے میں اہم اعلان کرسکتی ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کا صرف ایک ہی مقصد مودی کو تیسری مرتبہ ملک کا وزیراعظم منتخب کرنا ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ سماج میں تعلیم یافتہ اور دانشور سمجھے جانے والے افراد بھی اس مہم کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مسلمانوں کے کئی ممالک ہوسکتے ہیں تو ہندوؤں کا ایک ملک کیوں نہیں بن سکتا۔ ملک میں کمزور اپوزیشن فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کرنے میں اس حد تک متحد اور سرگرم نہیں جتنا کہ وقت کی ضرورت ہے۔ کانگریس قائد راہول گاندھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف تنہا جدوجہد کر رہے ہیں۔ گودی میڈیا پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے راہول گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا اور کسانوں کے مخالف مرکزی حکومت ایجی ٹیشن کا بلیک آوٹ کردیا گیا تاکہ عوام حقائق سے واقف نہ ہوں۔ ٹی وی چیانل کوئی ہو یا پھر قومی اخبارات ہر جگہ صرف مودی ہی دکھائی دے رہے ہیں جو الیکشن کی تیاری میں روزانہ ہزاروں کروڑ کے پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے ملک کے دورہ پر ہیں۔ موجودہ حالات پر علی احمد جلیلی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
نفرتوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ہمیں
جب یہ دیواریں گریں گی راستہ ہوجائے گا