نمبرات کا (کالا) جادو

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس

ایک ایسا وقت تھا جب مسٹر نریندر مودی اور ان کے اشارہ پر ان کی وزیر فینانس نے ایک طرح سے خانگی شعبہ کے ذریعہ عہد لیا تھا کہ وہ خانگی شعبہ کی ترقی و نمو کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھیں گے۔ خاص طور پر زرعی شعبہ اور اکثر خدمات اور صنعت میں بھی جو ترجیحی ماڈل ہوگا، وہ نجی شعبہ کی زیرقیادت نمو ہوگا۔ اس دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب نوٹ بندی کے بعد مسٹر مودی نے ایسا لگتا ہے کہ اپنا فلسفہ تبدیل کردیا اور نجی شعبہ میں ان کا بھروسہ گھٹ کر رہ گیا اور وہ حکومت کی زیرقیادت ماڈل کے ایک بھگت اس کے حامی بن گئے۔ اس طرح بجٹ برائے سال 2022-23ء کے ساتھ ہی تبدیلی مکمل ہوگئی۔ یہ ایسا بجٹ ہے جسے یک انجنی حکومتی سرمایہ مصارف کے ذریعہ آگے بڑھایا گیا یا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیار کیا گیا لیکن جو رکاوٹ ہے، وہ اعداد میں پوشیدہ ہے۔
وزیر فینانس نے دعویٰ کیا کہ 2021-22ء میں حکومت بجٹ میں پیش کردہ سرمایہ مصارف سے تجاوز کرگئی یا ان مصارف کو بڑھایا گیا۔ مثال کے طور پر بل آف ایکسچینج BE ، 5,54,235 کروڑ روپئے کی بہ نسبت RE اعداد 6,02,711 کروڑ روپئے تھے۔ یہ حیرت انگیز موڑ یا تبدیلی ناخوشگوار ثابت ہوگی۔ آخرالذکر رقم میں وہ 51,971 کروڑ روپئے بھی شامل ہیں جو ایرانڈیا پر عائد قرض کی ادائیگی کیلئے ایرانڈیا کو دیئے گئے۔ ایرانڈیا کو خانگیانے سے قبل اس پر عائد قرضوں کا بوجھ ہٹانے کیلئے حکومت نے اسے کثیر رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ ایک قرض کی ادائیگی کیلئے دی گئی رقم کو بھی سرمایہ مصارف میں شامل کیا جاتا ہے۔ اگر اس رقم کو منہا کردیا جائے تو 2021-22 کے سرمایہ مصارف صرف 5,50840 کروڑ روپئے ہوں گے جو بل ایکسچینج یا BE سے کم ہیں، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اگر اعداد و شمار میں بھی دیکھا جائے تو ان میں بھی کئی ناخوشگوار حیرتیں موجود ہیں۔ وزیر فینانس نے بڑے فیاضانہ انداز میں اعلان کیا کہ وہ ریاستوں کو ایک اضافی 1,00,000 کروڑ روپئے بطور قرض حاصل کرنے کی اجازت دیں گی ور وہ بھی قرض سے پاک ، اگر اسے سرمایہ مصارف سے جوڑا گیا تو پھر بہت جلد یہ واضح ہوگیا کہ وہ ریاستیں راست مارکٹ سے قرض حاصل کریں گی اور مرکز صرف سود برداشت کرے گا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر فینانس نے یہ رقم مرکزی حکومت کے سرمایہ مصارف 2022-23ء بی ای میں سے اٹھائی جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ 7,50,246 کروڑ روپئے کی مقدار میں پرنٹ کی گئی ۔ ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مرکزی حکومت نے اپنا سرمایہ مصارف 35% تک بڑھایا یعنی پچھلے سال کی بہ نسبت سرمایہ مصارف میں 35% تک اضافہ ہوا۔ انہوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے حاصل کئے جانے والے زائد قرض کے بارے میں کچھ نہیں کہا ۔ حکومت اور وزیر فینانس کے تعلق سے گول مٹول باتیں کرتے ہیں اور یہ بدترین دھوکہ ہے۔ اس رقم کو منہا کرلیا جائے تو سال 2022-23ء بی ای کیلئے مرکز کا سرمایہ مصارف صرف 6,50,246 کروڑ روپئے ہوگا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بی ای 2021-22 کی بہ نسبت 1,00,000 کروڑ روپئے کا معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ دو سال قبل ہی حکومت نے بی پی سی ایل، سی سی ایل اور ایس سی ایل کو خانگیانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گزشتہ سال حکومت نے سرکاری شعبہ کی دو بینکوں اور سرکاری شعبہ کی ہی ایک انشورنس کمپنی کو خانگیانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ وزیر فینانس نے پچھلے سال ہی 6,00,000 کروڑ روپئے مالیتی سرکاری شعبہ کے اثاثوں کی بڑے پیمانے پر فروخت کا بھی اعلان کرکے سب کو حیران کردیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تمام اعلانات صرف اعلانات کی حد تک محدود رہ گئے، ان پر عمل نہیں کیا جاسکا۔آپ کو بتا دوں کہ ریلوے نے 109 روٹس پر چلنے والی 151 پاسنجر ٹرینوں کو خانگیانے کیلئے بولی طلب کی تھی۔ غرض حکومت ہر کام ایسا کررہی ہے جس سے سرکاری خزانہ کو نقصان ہوگا اور معیشت متاثر ہوگی۔ ایل آئی سی کے بارے میں بھی حکومت کا جو منصوبہ ہے، وہ بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔آج دیکھا جائے تو خانگی شعبہ میں سرمایہ کاری گھٹ گئی ہے، اس کی اہم وجہ طلب میں کمی ہے کیونکہ کئی صنعتوں میں Capacity Utilization (سی یو) 50% ہے۔ ایسے میں کوئی کیوں سرمایہ مشغول کرنے کا جوکھم لے گا۔
حکومت کسی کے مشورہ کو قبول نہیں کرتی
بے شمار ماہرین اقتصادیات نے حکومت کو کئی ایک تجاویز پیش کیں تاکہ معیشت میں بہتری لائی جاسکے۔ خانگی شعبہ میں سرمایہ کاری بڑھائی جاسکے لیکن حکومت نے ان تمام مشوروں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اگر وہ ان مشوروں کو قبول کرتی تو بیروزگاری کی شرح میں کمی آتی اور شرح نمو بھی بڑھ جاتی۔ماہرین کے مشوروں میں یہ بھی شامل تھا کہ جو MSMEs بند ہوچکی ہیں۔ ان کا احیاء کیا جائے، بہبودی اقدامات پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جائے اور یہ نہ کہے کہ ہمارے پاس رقم نہیں ہے جبکہ ہماری آبادی کا 10% دولت مند طبقہ کا قومی آمدنی کے 57% حصہ پر قبضہ ہے اور وہ 77% قومی دولت اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ ان دولت مندوں کو آگے آکر امریکی ارب پتیوں کی طرح کہنا چاہئے کہ ہم پر زیادہ محاصل عائد کیا جائے، لائنس راج کا بھی ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ سی بی آئی ، ای ڈی، SFIO اور آئی ٹی کو بھی قابو میں رکھا جائے۔