نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز

,

   

رشیدالدین
’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو آپس میں اتحاد کا خیال تو آیا۔ نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کی من مانی اور تانا شاہی کو روکنا ضروری ہوچکا ہے ورنہ ملک کا سیکولر کردار خطرہ میں پڑ جائے گا۔ ہندو راشٹرا کی تشکیل کی سازش کامیاب ہوجائے گی۔ مودی حکومت نے دستوری اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اپوزیشن کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال معمول بن چکا ہے ۔ عدلیہ جس پر عوام کو اٹوٹ اعتماد ہے، اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کیلئے ججس کو ریٹائرمنٹ کے بعد عہدوں کا لالچ دیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے مزاحمت کے ذریعہ اپنی غیر جانبداری اور آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ مقننہ اور عاملہ پر بی جے پی سنگھ پریوار کے کنٹرول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں من مانی قانون سازی کی گئی اور ایڈمنسٹریشن کو اپوزیشن اور مسلمانوں کے خلاف کھلے عام استعمال کیا جارہا ہے ۔ گورنر کے عہدہ کی ہر دور میں مخالفت کی گئی کیونکہ مرکز اور ریاست میں رابطہ کار کے بجائے غیر بی جے پی ریاستوں کے گورنرس نے بی جے پی کارکن کا رول ادا کرتے ہوئے اپوزیشن حکومتوں کے لئے مسائل کھڑے کئے۔ کمزور اور منتشر اپوزیشن کا فائدہ اٹھاکر نریندر مودی حکومت بے لگام ہوگئی اور عوام کو راحت کے بجائے زحمت میں اضافہ ہوگیا۔ وعدہ تو تھا اچھے دن کا لیکن عوام کو تلخ تجربہ نے پرانے دن لوٹانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ظاہر ہے کہ روکنے والا ہی کوئی نہ ہو تو پھر عوامی شعبہ کے ادارے کہاں بچنے والے تھے۔ ریلویز ، ایل آئی سی ، بی ایس این ایل اور دیگر اداروں کو خانگیانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ منافع بخش عوامی اداروں کو اڈانی اور امبانی کے حوالے کرنے کی تیاریاں ہیں۔ بی جے پی کو مرکز میں دو مرتبہ اقتدار کیا حاصل ہوا ، اس نے اپوزیشن کے خاتمہ کا خواب دیکھ لیا ۔ نریندر مودی ۔امیت شاہ جوڑی اقتدار کے نشہ میں بھول گئی کہ ہر عروج کے ساتھ زوال لازمی ہے ۔ بی جے پی کو خطرہ صرف کانگریس سے ہے ، لہذا اپوزیشن کو منتشر رکھنے پر ساری توانیاں صرف کی جانے لگیں۔ راہول گاندھی کو ایک ناتجربہ کار سیاستداں کے طور پر پیش کرتے ہوئے امیج متاثر کیا گیا ۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے سیاسی وارث نے کنیا کماری تا کشمیر بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ نہ صرف عوام کے دلوں میں جگہ بنائی بلکہ سیاسی تجربہ اور پختگی کا ثبوت دیا۔ بھارت جوڑو یاترا نے ایک طرف بی جے پی کے ہوش اڑادیئے تو دوسری طرف اپوزیشن کو اتحاد کی طرف مائل کیا ۔ راہول کی قیادت میں پارلیمنٹ میں جب اپوزیشن نے اڈانی معاملہ پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی تو عدالت کا سہارا لے کر راہول گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت کو ختم کردیا گیا ۔ راہول گاندھی کو سرکاری بنگلہ خالی کرنے کی نوٹس دی گئی جبکہ اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، سبرامنیم سوامی اور غلام نبی آزاد سرکاری قیامگاہوں میں مقیم ہیں جبکہ وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں۔ راہول گاندھی کے خلاف کارروائی نے اپوزیشن کو کانگریس سے قریب کر دیا ۔ ملک کی 18 سے زائد قومی اور علاقائی جماعتوں نے کانگریس کی قیادت میں مودی کے خلاف جدوجہد سے اتفاق کیا ہے۔ چند ایک پارٹیوں نے کانگریس کے بغیر تیسرے محاذ کا نعرہ لگایا لیکن اب انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ منتشر رہ کر مودی سے مقابلہ ممکن نہیں۔ کامیاب بننے کے لئے تمام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ضروری ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار کو وزیراعظم کے چہرہ کے طور پر پیش کیا گیا لیکن موجودہ سیاسی حالات میں نتیش کمار نے بھی کانگریس کی قیادت تسلیم کرنے سے اتفاق کیا ہے ۔ نتیش کمار اور تیجسوی یادو کی راہول گاندھی اور ملکارجن کھرگے سے ملاقات نے اپوزیشن اتحاد کی راہ میں اہم پیشرفت کی ہے۔ اس ملاقات کو 2024 ء عام انتخابات میں مودی سے مقابلہ کا بگل بھی کہا جاسکتا ہے ۔اپوزیشن اتحاد کی راہ میں بی جے پی نے ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کیں اور اپنے ہم خیال قائدین کو استعمال کیا گیا۔ اب جبکہ ہر اپوزیشن کو مودی حکومت سے جھٹکا لگا ہے ، لہذا 2024 ء ٹارگیٹ کے ساتھ اتحاد کی مساعی شروعی کی گئی۔ اپوزیشن اتحاد کی راہ میں بی جے پی ضرور رکاوٹ بن سکتی ہے لیکن تلخ تجربات اور ہراسانی نے اتحاد کو اپوزیشن کی مجبوری بنادیا ہے ۔ یہ اپوزیشن پارٹیوں کے بقاء کی لڑائی تو ہے ہی ، اس کے ساتھ ملک میں دستور ، قانون ، سیکولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ 2014 ء اور 2019 ء میں بی جے پی کو اپوزیشن ووٹ کی تقسیم کا فائدہ پہنچا تھا ۔ اگر 2024 ء میں ووٹ کی تقسیم روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کیا جاسکتا ہے۔ بعض علاقائی جماعتیں مرکز سے مفادات کی تکمیل کیلئے درپردہ بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ جگن موہن ریڈی اور نوین پٹنائک کو ملک کے مفاد میں بی جے پی کے گھیرے سے نکلنا ہوگا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ ابتداء میں بی جے پی کے خاموش حلیف رہے لیکن جب انہوں نے تلنگانہ میں بی جے پی کے قدموں کو روکنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کو متحرک کردیا گیا ۔ بی جے پی کے خلاف ملک بھر میں متحدہ امیدواروں کے ذریعہ مقابلہ میں دانشمندی ہے ۔ فرقہ پرست طاقتوں اور نفرت کے سوداگروں پر مشتمل سنگھ پریوار سے ملک کو نجات دلانے کا یہ آخری موقع ہے ، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
مولانا سید رابع حسنی ندوی بھی آخرکار ملت مظلومہ کو داغ مفارقت دیتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا رابع حسنی ندوی کا وصال ملت اسلامیہ کے لئے کس قدر عظیم نقصان ہے، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مولانا علی میاںؒ کے بعد مولانا رابع حسنی ندوی کی شخصیت اور مقبولیت نے تمام مسالک کو ان کے اطراف جمع کردیا تھا۔ اگرچہ ایک عرصہ سے ان کی طبیعت ناساز تھی لیکن ان کی موجودگی مسلمانوں کو دینی ، ملی اور علمی معاملات میں مسلسل حوصلہ بخشتی رہی۔ مولانا کے سانحہ ارتحال سے ساری دنیا میں اسلامی حلقہ سوگوار ہیں۔ حضرت کی خوبی یہ تھی کہ ہر حلقہ میں انہیں احترام اور اعتبار کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ نامساعد حالات میں انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ مسلمانوںکی نہ صرف شرعی رہنمائی کی بلکہ قومی اور ملی مسائل میں بے باک رائے کا اظہار کیا۔ ایسے وقت میں جبکہ ملت میں مخلص اور دردمند شخصیتوں کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے، مولانا رابع حسنی ندوی کے اطراف تمام مسالک کا یکجا ہونا ان کی غیر معمولی شخصیت کا واضح ثبوت تھا۔ مولانا علی میاں کی رحلت کے بعد جب مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت کیلئے موزوں شخصیت کی تلاش تھی تو ہر کسی کی نظر مولانا رابع ندوی پر رک گئی ۔ انہوں نے پرسنل لا بورڈ کی ذمہ داری کو مولانا علی میاں کے طرز پر نبھاتے ہوئے مسلمانوں کو یہ پیام دیا کہ اپنے مسائل کے حل کیلئے اقتدار وقت سے آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کریں اور اپنے ملی تشخص کے ساتھ اپنی شناخت کو برقرار رکھیں۔ نریندر مودی حکومت کے مخالف اسلام اور مخالف مسلم اقدامات کا جرأت مندی اور حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کا جذبہ فراہم کرنے میں مولانا رابع ندوی نے اپنی آخری سانس تک مساعی کی ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مومن کیلئے ہر لمحہ امتحان ہے اور مسلمان اپنی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کو مزید مضبوط کریں تو حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی اور ایک نہ ایک دن صبح امید نمودار ہوگی۔ مولانا رابع حسنی ندوی نے کبھی بھی حکومت کی چوکھٹ پر قدم نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ اقتدار وقت کو ان کے در پر حاضری دینی پڑی ۔ بستر علالت پر ہونے کے باوجود مولانا رابع ندوی مسلمانوں اور ساری ملت اسلامیہ کیلئے ایک ہمت تھے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مولانا کی ملی ، علمی اور تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ مولانا علی میاں ، مولانا منت اللہ رحمانی ، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ، مولانا عبدالکریم پاریکھ، مولانا ابواللیث اصلاحی ، مولانا سراج الحسن، مولانا ولی رحمانی اور دیگر شخصیتوں کی آج شدت سے کمی محسوس ہورہی ہے ۔ ہر نازک موڑ پر ملت کو ان شخصیتوں کی یاد شدت سے ستاتی ہے۔ مولانا رابع ندوی کے وصال کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ بھی خالی دکھائی دے رہا ہے ۔ ملی کونسل اور مسلم مجلس مشاورت جیسے ادارے اپنا وجود کھوچکے ہیں اور برائے نام بن کر رہ گئے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو صدارت کے لئے مولانا رابع ندوی جیسی شخصیت کا حصول آسان نہیں ہے ۔ وہ نہ صرف پابند شریعت تھے بلکہ شریعت کی حفاظت کے لئے ہمیشہ برسر پیکار رہے۔ عالِم کی موت کو عالَم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مولانا رابع ندوی کی ملت اسلامیہ سے جدائی سے حقیقی معنوں میں خلاء پیدا ہوا ہے جس کا پُر ہونا آسان نہیں۔ مسلمانوں کے ہر شعبہ میں ان دنوں خلاء دکھائی دے رہا ہے۔ نئی نسلوں کے لئے موجودہ صورتحال یقینی طور پر لمحہ فکر ہے کیونکہ ہر شعبہ میں سکنڈ لیڈرشپ کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایسی شخصیت کی پرسنل لا بورڈ کے لئے ضرورت ہے جو نہ صرف علم اور تقویٰ میں عالم باعمل ہوں بلکہ مولانا علی میاں اور مولانا رابع ندوی کی طرح جرأت مندی اور بے باکی کے ساتھ اقتدار وقت سے مقابلہ کا جذبہ رکھتے ہوں۔علامہ اقبال نے قیادت کیلئے جن صلاحیتوںکا ذکر کیا، وہ کچھ اس طرح ہیں ؎
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے