نیا سال

   

یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جسکا یہ وہ سحر تو نہیں
نیا سال
وزیراعظم نریندر مودی نے سال 2018 میں اپنی حکومت کے کارناموں پر فخریہ بیان دیتے ہوئے نئے سال کی آمد پر توقع ظاہر کی کہ اس نئے سال 2019 میں بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے عوام کے حق میں بہترین حکمرانی فراہم کی جائے گی ۔ ان کی تقریر اور ان کی حکومت کے کارناموں کے درمیان جو خط فاصل دکھائی دیا اسے عوام بھی نوٹ کرچکے ہیں ۔ ملک کی ملکیت پر وزیراعظم کو فخر ہے ۔ سماجی شعبہ میں بہتری کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اور اسپورٹس سے لے کر دیگر شعبہ ہائے حیات کی تصویر بھی انہوں نے خوشنما طریقہ سے پیش کی ہے ۔ مگر حقائق کیا ہیں یہ ہندوستانی عوام بخوبی جانتے ہیں ۔ حالیہ 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی بدترین ناکامی نے آنے والے سال 2019 کی تصویر بھی واضح کردی ہے کہ ملک کے عوام کھوکھلے وعدوں ، نفرت کی سیاست ، ہجومی تشدد اور پولیس ملازمین سے لے کر عام شہریوں کی اموات نے ہر شہری کے اندر عدم تحفظ کے احساس کو قومی بنادیا ہے ۔ ان تلخ حقائق اور خرابیوں پر چشم پوشی اختیار کرنے کی غلطی بھیانک ثابت ہوگی ۔ وزیراعظم کو اپنی حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی ناراضگیوں کا اندازہ ہے یا نہیں یہ کہا نہیں جاسکتا لیکن انہوں نے اپنی کارکردگی کی از خود ستائش کی ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حقائق پر پردہ ڈالنے کی حکمت پر عمل پیرا ہیں ۔ سال 2018 میں مودی حکومت کی سب سے بڑی عالمی سطح کی صحت انشورنس اسکیم ’ یوشمان بھارت ‘ کے بارے میں مودی نے اس اسکیم کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اعزاز میں پیش کیا تو دوسری طرف سردار پٹیل کے ’ مجسمہ اتحاد ‘ کی تعریف کی جب کہ 3000 کروڑ روپئے کی لاگت سے تیار کردہ یہ مجسمہ اس غریب ملک کے غریب عوام کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے ۔ سوشیل میڈیا کا سہارا لے کر 2014 میں اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی حکومت کو اب اس سوشیل میڈیا کے باعث نقصان ہوگا ۔ عوام پہلے سے زیادہ باشعور ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ عوام کو زیادہ مدت تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کا ہر رکن آج اپنی الگ تھیوری ، اپنی فلاسفی اور اپنے تعصب کے رنگ میں رنگ کر قومی یکجہتی جمہوری اداروں اور سیکولر تانے بانے کو تباہ کرنے کے درپہ ہے ۔ بی جے پی حکومت کے چند دانشور ایسے ہیں جن کی دانش کو ان کے پیٹ سے جلا ملتی ہے اور اس پیٹ کو غذا فراہم کرنے والے عہدے ان کو دے کر عوام کو مصیبت میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ مودی حکومت کی تعریف کرنے والوں کی فہرست میں دانشوروں کی ٹولی ہے جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے یا پھر تعصب کے شیشوں والی عینک پہنے بڑے ٹی وی مباحث میں دانشوری بگھارتے نظر آتے ہیں ۔ انہیں ہر خراب پہلو میں بھلائی نکالنے کی عادت ہے ۔ ہجومی تشدد میں ہلاک افراد کے واقعات کو بھی دوسرا رنگ دے کر حکومت کی خرابیوں پر پردہ ڈالتے ہیں ۔ بلند شہر ، پرتاپ گڑھ اور اب یو پی کے ہی ضلع غازی پور میں ہجومی تشدد کے ہاتھوں پولیس کانسٹبل ہلاک ہوگیا ۔ یہ واقعات ایسے نازک صورتحال کو جنم دے رہے ہیں جو آگے چل کر ملک کی سمت بگاڑ سکتے ہیں ۔ گذشتہ ایک سال کے اندر دہلی اور یوپی میں جو کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اس کا اثر ملک بھر میں دکھائی دے رہا ہے ۔ حکومت کی خرابیوں کا تجزیہ کرنے کے بجائے اس کی تعریف کرنے والوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اگر یہ لوگ حکومت کو اس کی خرابیوں کی جانب توجہ دلاتی تو آج بی جے پی کے بارے میں عوامی رائے منتشر نہیں ہوتی اور بی جے پی کا ووٹ بینک تباہ نہیں ہوتا ۔ بی جے پی نے اپنے ہی ووٹ بینک کو جھوٹے وعدوں اور غلط پالیسیوں سے کمزور کرلیا ہے ۔ چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش ، راجستھان کے رائے دہندوں کا فیصلہ اب سارے ملک کی ریاستوں کے فیصلے میں تبدیل ہونے جارہا ہے تو یہ نیا سال مودی حکومت کے خلاف عوامی مورچہ بندی کا سال ہوگا ۔ کیوں کہ اس کرپٹ حکومت میں کرپٹ نوکرشاہی کے منہ کو خون لگا ہوا ہے جو درحقیقت اس حکومت کو ناکام بنانے کا باعث ہوگا ۔ اس حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی زور اس بات پر ہے کہ ملک کے سیکولر کردار کی بقا کے لیے کام کیا جائے ۔ جمہوری ، دستوری اداروں کا تحفظ کیا جائے اور ان اداروں پر ناقص حکمرانی کی گرفت کو کمزور کردیا جائے گا ۔ توقع ہے کہ نیا سال قومی سطح پر اچھی تبدیلیوں کی نوید لائے گا ۔۔