نیوزی لینڈ میں مسجد کے اندر قتل عام کے اندر نو مرتبہ گولی لگنے کے بعد زندہ بچ جانے والے شخص اب خوف سے باہر

,

   

مذکورہ حملے میں ہلاک ہونے والے51لوگوں کی یاد اتوار کے روز نیوز لینڈ میں منائی جائے گی۔

اس روز سے آہستہ آہستہ 45سالہ عطاء کوکو گو ذہنی اور جسمانی زخموں سے ابھر رہے ہیں۔ اور اب وہ ہر قسم کے خوف کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں

کرائس چرچ۔اس وقت النور مسجد میں بندوق بردار داخل ہوا‘ تامیل عطا کوکو جمعہ کی نماز کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔

انہوں نے اس شخص کاچہرہ دیکھا اور سمجھا کہ وہ ایک پولیس افیسر ہے کیونکہ وہ نیم فوجی لباس میں تھا۔

وقت کے ساتھ عطاء اوپر اٹھی ہوئی بندوق سے دھواں نکلتا دیکھا اور ان کے دانتوں میں گولیوں کا زور محسوس کیا اور سمجھا ”میرے خدا میں تو مررہاہوں“۔

مگر نو مرتبہ گولیاں لگنے کے بعد بھی وہ النور مسجد حملے میں بچ گئے جو کرائس چرچ شہر کی دو مساجد میں پچھلے سال 15مارچ کو ہوئے نیوز لینڈ کی تاریخ کے سب سے ہولناک حملے میں بچ گئے۔

مذکورہ حملے میں ہلاک ہونے والے51لوگوں کی یاد اتوار کے روز نیوز لینڈ میں منائی جائے گی۔

اس روز سے آہستہ آہستہ 45سالہ عطاء کوکو گو ذہنی اور جسمانی زخموں سے ابھر رہے ہیں۔ اور اب وہ ہر قسم کے خوف کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

حملے کے روز جب عطاگو مسجد میں داخل ہوئے تو وہ ایک خوشگوار موڈ میں تھے۔

فٹبال‘ مچھلی رانی اور رننگ کے مداح ایک حرکیاتی شخص‘ انہوں نے اسپورٹس کی وجہہ سے لگی چوٹ سے ابھرنے کے لئے اپنا آخری ایکیو پنکچر سیشن پورا کیاتھا او ربہتر محسوس کررہے تھے۔

ترکی میں بڑے ہوئے لازمی طو رپر فوجی ٹریننگ حاصل کی تھی‘ کیونکہ انہوں نے کیاہورہا ہے اس کا فوری اندازہ لگالیاتھا۔

طبی اسٹاف نے بعد میں انہیں بتایا کہ وہ نہایت خوش قسمت ہیں کیونکہ اوپری جبڑی میں لگی گولی شریان یا دماغ کی طرف جانے کے بجائے نیچے کی طرف ائی ہے۔

عطاگو نے کہاکہ پہلے گولی منھ پر لگی وہ بد حواس ہوگئے اور چار گولیاں دونوں پیروں میں لگیں۔

لوگ چلارہے تھے۔ ایک اور نمازی بندوق بردار کی طرف دوڑا اور وہ مارا گیا‘ مگر اس وقت نے کچھ ردعمل پیش کرنے کا موقع دیا اور وہ جتنا ہوسکتا تھا اتنی شدت سے دوڑنے لگے۔

باہر جانے کا کوئی واضح راستہ نہیں تھا‘ لہذا وہ فرش پر حرکت کے بغیرلیٹ گئے۔

بعد میں چار مرتبہ اس نے ان کے دائیں ہاتھ او رپیر پر گولیاں برسائیں اور بندوق بردار نے نعشوں کے اوپر بے تحاشہ انداز میں گولیاں برسائیں۔

عطاگو نے ایک ماہ سے زیادہ کا وقت اسپتال میں گذار ہے اور ان کے چار اپریشن ہوئے ہیں جس میں ہڈیو ں او رچمڑی کا بھی اپریشن شامل ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید تین اپریشن بھی ہوں گے۔

عطا گو نے کہاکہ ”حملے کے بعد ائے سب سے بڑی تبدیلی میں سابق کی طرح آزاد نہیں ہوں۔

کیونکہ ارد گرد کافی کم حمل ونقل ہے۔ اور میں ایک چھوٹے بچے کی طرح محسوس کررہاہوں‘ کیونکہ کسی نہ کسی کو ہر وقت میری دیکھ بھال کرنا پڑتا ہے“۔

کرائس چرچ شہر میں اپنے کم عمر دوبچوں کے قریب رکھنے والے مذکورہ شخص کاکہنا ہے کہ ”وہ برہم ہے اور غصہ میں بھی اس واقعہ کو لے کر مگر میرے دین نے مجھے صبر وتحمل کی تلقین کی ہے اور میں پر امید ہوں کہ نیوز ی لینڈ کے سخت قانون سے اس دہشت گرد کو کڑ ی سے کڑی سزا ملے گی“