والدین کا احترام

   

خواجہ رحیم الدین
(ایم ۔اے۔ ایم ۔ ایڈ (عثمایہ)
ہر انسان کی صفت یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے اور ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک عظیم کاموں میں شامل ہے۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں والدین کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو، اے پروردگار جیسے انہوں نے میری پرورش کی ہے ان پر رحمت فرما۔
اسلام نے والدین کے مقام کو بہت بلند کیا ہے۔ خدا کی خوش نودی کے بعد والدین کی خوش نودی کا درجہ ہے ۔ اللہ کی بندگی کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاو کریں، سچا اور باشعور مسلمان اپنے والدین کے ساتھ اچھا حسن سلوک کرتا ہے۔
قرآن کریم میں والدین کے مقام کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے، اگر دونوں یا کسی ایک کی عمر طویل ہو جائے کمزوری اور بے چارگی میں پہنچ جائیں تو اسلام میں ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ دین کے آنے سے پہلے کبھی نہیں تھا، ہم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کریں اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کریں۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تب بھی اُف تک نہ کہیں اور نہ جھڑک سے بات کریں بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کریں اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہیں۔ اللہ سے دعا کریں۔ اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرما جس طرح انہوں نے شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا ہے، اللہ کی عبادت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے درمیان مضبوط تعلق پایا جاتا ہے ۔ والدین بوڑھے، ضعیف اور کمزور ہو جاتے ہیں ہماری دیکھ بھال نگرانی اور حفاظت میں رہتے ہیں وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں اس لئے احتیاط کریں۔ کہیں ہمارے منہ سے ناراضی، اکتاہٹ اور تنگی کے الفاظ نہ نکلیں، بات کہنے سے پہلے ایسی بات کریں جو ان کو پسند ہو جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کے لئے ہماری زبان سے دعا نکلنی چاہئے۔ انہوں نے ہم پر ایسا احسان کیا ہے جس کو ہم بھول نہیں سکتے۔ ہماری پرورش کرے جب ہم چھوٹے کمزور ناتواں تھے اللہ کی ہم کو ہدایت ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کریں۔ ماں اپنے پیٹ میں نو مہینے اٹھاکر رکھی ہے۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب علم وقت پر نماز ادا کرے، اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے بعد اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، غور کرنے کا مقام ہے رسول اللہ ؐ نے والدین کو کتنا عظیم مقام دیئے ہیں۔ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں ہجرت اور جہاد سے بہتر اولاد کو اپنے والدین کی خدمت جہاد سمجھ کر کرنا چاہئے۔
حضرت سعد بن وقاص ؓ کی والدہ ان کے اسلام قبول کرنے پر ناراض تھے اور کہتی رہی پھر جاو ورنہ میں کھانا نہیں کھاؤں گی اور مرجاؤں گی لوگ کہیں گے ماں کو مار ڈالا۔ حضرت سعد ؓ جواب دیتے ہیں وہ بھی سختی سے مرجاؤ میں اسلام سے نہیں پھروں گا، ماں نے دو دن صبر کرکے کھانا کھالیا۔ اللہ نے حضرت سعد ؓ پر عتاب نازل کیا کیونکہ انہوں نے اپنی ماں کو اتنا سخت جواب کیوں دیا۔
اسی طرح ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے۔ ماں نے آواز دی وہ سن لئے اور نماز کو جاری رکھے۔ ماں دوبار آواز دی وہ نماز میں مشغول رہے، آخر ماں بد دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تیرے مرنے سے پہلے تجھے بدکار چہرہ دکھائی دے۔ ہوا یہ کہ اسے بدکار عورت سے سابقہ پڑا کسی نے زنا کیا تھا حمل ہوگیا۔ مختصراً یہ کہ والدہ کی آواز پر لبیک نہیں کہا، لبیک کہنا زیادہ ضروری تھا۔رسول اکرم ؐ اپنی رضائی ماں کے سامنے کھڑے ہوکر ادب سے گفتگو کرتے تھے۔ امام بخاری کی روایت ہے آدمی جب نفل نماز پڑھ رہا ہو اور والدین میں سے کوئی آواز دے تو اس پر ضروری ہے کہ نماز ترک کرے اور ان کی آواز پر لبیک کہے۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں وہ کسی مذہب کے پیرو ہو صلہ رحمی کرسکتے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ نافرمان لڑکے کی زبردست سرزنش کرنی ہیں کیونکہ ان میں والدین کی نافرمانی کو شرک سے متصل درجہ میں رکھا گیا ہے، والدین کی نافرمانی ایک بدترین اور سخت جرم ہے۔اسلام نے اپنے ارشادات میں ماں باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیا ہے۔ ماں سے حسن سلوک پہلا ہے پھر باپ کا۔
ایک روایت میں ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے، والدین کے مرنے کے بعد چار چیزیں کرنے کی ہیں۔ ان کے لئے دعا کرنا، ان کے عہد کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور ان کے رشتوں کو جوڑنا۔ مسلمان اپنے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا سلسلہ جاری رکھنا ہے، ان کی طرف سے صدقہ کرنا اور ان کے لئے کثرت سے دعا کرتے رہنا۔
ایک حقیقی واقعہ بیان ہے۔ بیٹا باپ کے انتقال کے بعد باپ کو کوستا ہے کہتا ہے وہ تو مرگئے اب کوئی رشتہ باقی نہیں رہا، باپ کو بھول جانا ہے۔ میں تو بھول گیا کون باپ میں اب فری ہوں (لوگ اس کو شوکر فری کہتے ہیں) اللہ کی لعنت وہ آج گلیوں میں بھٹک رہا۔ مسجد میں بھی داخل نہیں ہوسکتا دوست اب اس سے دور ہوگئے ہیں وہ باپ کے زمانے میں انجینئرنگ بھی پڑھ لیا، باپ کے بارے میں برے الفاظ اللہ نے دنیا میں ہی سزا دے دی۔
آج کل لوگ بیوی بچوں پر پوری توجہ مبذول کرتے ہیں، والدین پر بیوی بچوں کے بعد توجہ دیتے ہیں، دل میں یہ خیال آنا چاہئے کہ نعمتوں، خوش حالی میں والدین کا بھی حصہ ہے۔ والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا، خوب سخاوت سے ان پر خرچ کرنا، محبت آمیز مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے۔ ان تمام باتوں کو ذہن نشین کرنا حسن سلوک کی بدولت ہمارے لئے جنت کے دروازے کھول لینا ہے۔ سچائی جنت میں اور برائی دوزخ میں لے جاتی ہے