وزیراعظم مودی کو بڑی کامیابی کیساتھ دوبارہ اقتدار

,

   

بی جے پی کا عروج، کانگریس ناکام

نئی دہلی ، 23 مئی (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی نے آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسے موقف تک پہنچا دیا جو اُن کیلئے وزارت عظمیٰ کی دوسری میعاد کو یقینی بناتی ہے۔ ان انتخابات نے 68 سالہ مودی کو کئی دہوں میں سب سے مقبول عام لیڈر ثابت کیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ عبوری نتائج کے مطابق بی جے پی اپنے 2014ء کے پرفارمنس کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ سہ پہر 4:30 بجے تک بی جے پی نے 5 سیٹ جیت لئے اور 294 دیگر میں سبقت حاصل کرلی یعنی جملہ 299 سیٹ، جو بلاشبہ بی جے پی کا عروج ہے۔ 543 کے منجملہ 542 لوک سبھا نشستوں کیلئے چناؤ سات مرحلوں میں منعقد ہوئے۔ آج اپوزیشن کو بُری طرح شکست ہوئی، جس میں رجحانات کے مطابق کانگریس صرف 50 سیٹوں پر سبقت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے جبکہ تمام دیگر جن میں این ڈی اے اور یو پی اے حلیفوں کیساتھ غیرجانبدار پارٹیاں شامل ہیں، انھیں 193 سیٹیں ملتی نظر آرہی ہیں۔ اس طرح 542 کی گنتی پوری ہوتی ہے۔
ووٹوں کی گنتی کا عمل ملک بھر میں زائد از 4,000 رائے شماری مراکز پر ہورہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوم پرستی، سکیورٹی، ہندو ساکھ اور نیو انڈیا سے متعلق اُن کے پیام کو ملک کے بڑے حصوں میں ووٹروں نے پوری توجہ سے قبول کیا ہے۔ مودی خود وارانسی حلقہ میں زائد از 4.3 لاکھ ووٹوں کے فرق سے آگے ہیں جبکہ صدر پراٹی امیت شاہ کو گجرات کی اُن کی آبائی ریاست کے حلقہ گاندھی نگر میں زائد از 5.5 لاکھ ووٹوں کی سبقت مل چکی ہے۔ مودی نے ٹوئٹ کیا: ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور ہر کسی کا اعتماد مل کر فاتح ہندوستان کی شکل میں اُبھرا ہے۔ ہم مل کر آگے بڑھتے ہیں۔ ہم مل کر کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم مل کر طاقتور اور سب کا ہندوستان بنائیں گے۔ انڈیا دوبارہ جیت گیا ہے۔‘‘ بہرحال انتخابی مہم کے آخری مراحل میں بی جے پی کی پیش قیاسی کہ ’’اب کی بار 300 پار‘‘ درست معلوم ہورہی ہے، جبکہ صدر کانگریس راہول گاندھی کی مہم کا نعرہ ’’چوکیدار چور ہے‘‘ ووٹروں میں کوئی جوش نہیں پیدا کرپایا۔ مارکیٹس میں انتخابی نتائج کے رجحانات پر جوش و خروش دیکھنے میں آیا، جیسا کہ حصص بازار میں کسوٹی کی حیثیت کے حامل بی ایس ای سنسیکس نے پہلی مرتبہ 40,000 کے نشان کو چھولیا اور این ایس ای نفٹی نے 12,000 کی سطح کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ روپیہ کی قدر امریکی ڈالر کی تجارت میں 14 پیسے بڑھ کر 69.51 روپئے ہوگئی۔ اگر یہ رجحانات قطعی نتائج تک یونہی برقرار رہتے ہیں تو بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں شامل اس کے حلیفوں کو 344 نشستیں ملنے کا امکان ہے، جو 2014ء کی عددی طاقت 336 سے آٹھ زیادہ ہے۔ بی جے پی اب لوک سبھا میں 300 کے نشانے کے قریب پہنچتی دکھائی دے رہی ہے

جبکہ گزشتہ الیکشن میں اُس نے اپنے بل بوتے پر 282 سیٹیں جیتے تھے۔ یہ نتائج مودی کی مقبولیت، اُن کی حکومت کے گزشتہ پانچ سال میں کارہائے نمایاں اور اُن کی مہم جو بالاکوٹ ایئر اسٹرائکس کے بعد نیشنل سکیورٹی، قوم پرستی اور ہندوتوا کے اطراف مرکوز رہی… ان تمام باتوں کی زبردست توثیق معلوم ہوتے ہیں۔ انھوں نے کانگریس پارٹی پر اس کی شاہانہ وراثت کیلئے بے تکان حملہ بھی کیا، اور اسے ملک کی پریشانیوں بشمول کرپشن کیلئے مورد الزام ٹھہرایا۔ اپوزیشن نے بی جے پی مہم کو تفرقہ پسند اور انتشارپسند قرار دیتے ہوئے تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا۔ پھر بھی نتائج کے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی لہر اور پارٹی کا تمام علاقوں، ذات پات کے خطوط، عمر، جنس اور معاشی موقف سے قطع نظر شاندار الیکشن مینجمنٹ عیاں ہورہا ہے۔ سیاسی طور پر کلیدی ریاست اترپردیش میں جہاں سماج وادی پارٹی۔ بہوجن سماج پارٹی اتحاد نے سخت چیلنج پیش کیا، بی جے پی کو 80 نشستوں کے منجملہ 59 پر سبقت حاصل ہے۔ ایس پی 6 اور بی ایس پی 11 میں آگے ہے۔ اگرچہ بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں 71 نشستیں جیتے تھے، لیکن آج کا پرفارمنس اُس سے کہیں بہتر ہے جو کچھ کئی ایگزٹ پولس نے پیش قیاسی کی تھی۔ نئی دہلی سے لے کر تقریباً ہر ریاست میں بی جے پی ہیڈکوارٹرز زعفرانی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں پھولوں اور مٹھائیوں کا انبار لگ رہا ہے۔

پٹاخے بھی جلائے جارہے ہیں اور پارٹی ورکرز بشمول خواتین رقص و سرور میں مست ہیں۔ اس کے برعکس کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی اور متعدد دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے دفاتر میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ کانگریس پارٹی اترپردیش میں صرف ایک سیٹ پر آگے ہے۔ حتیٰ کہ راہول گاندھی حلقہ امیٹھی میں بی جے پی کی سمرتی ایرانی سے لگ بھگ 20,000 ووٹوں سے پیچھے چل رہے ہیں لیکن کیرالا کے حلقہ ویاناڈ میں صدر کانگریس زائد از 8.3 لاکھ ووٹوں کے فرق سے سبقت کے ساتھ یہ نشست عملاً جیت چکے ہیں۔ ترجمان کانگریس جئے ویر شیرگل نے میڈیا کو بتایا کہ پارٹی میں اُداسی ہے اور یہ رجحانات پارٹی کی توقعات کی مطابقت میں نہیں ہیں۔ اگر رجحانات قطعی نتائج تک برقرار رہتے ہیں تو کانگریس کو احتساب کی ضرورت ہے کہ کیوں اس کی انتخابی مہم اس ملک کے عوام کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہوئی۔ مودی لہر نے نہ صرف ہندی پٹی اور گجرات میں بھرپور کامیابی حاصل کی جیسا کہ توقع تھی، بلکہ مغربی بنگال، اڈیشہ، مہاراشٹرا اور کرناٹک میں بھی اپوزیشن کو کاری ضرب لگائی ہے۔ صرف کیرالا، ٹاملناڈو اور آندھرا پردیش میں اس لہر کا شاید کوئی اثر نہیں پڑا۔ حتیٰ کہ تلنگانہ میں جہاں اس کے ناقص مظاہرے کا اندیشہ تھا، بی جے پی چار نشستوں پر آگے ہے جو رجحانات میں تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی ایس آر) کی بھی تعداد بتائی گئی ہے۔ تاہم، آندھرا پردیش نے اسمبلی چناؤ میں حیران کن نتیجہ پیش کیا ہے، جو بہ یک وقت منعقد کئے گئے تھے۔ چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی اقتدار سے بے دخل ہوگئی اور جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس فاتح بن کر اُبھری ہے۔ ہندی بولی جانے والی ریاستوں میں بی جے پی کیلئے آج کے رجحانات غیرمعمولی ہیں کیونکہ جہاں کانگریس نے حالیہ اسمبلی انتخابات جیتے، وہاں بھی بی جے پی نے زبردست مظاہرہ پیش کیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی 29 کے منجملہ 28 سیٹوں میں آگے ہے، راجستھان میں 25 کے منجملہ 24 میں، اور اسی طرح چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو 9 اور کانگریس کو 2 نشستیں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ہریانہ میں بھی بی جے پی کے 10 کے منجملہ 9 ایم پیز رہنے کی توقع ہے۔ اڈیشہ میں بی جے پی کو بڑا فائدہ حاصل ہوا، جہاں وہ 21 سیٹوں میں سے 6 میں آگے ہے جبکہ بیجوجنتا دل کو 15 نشستوں پر سبقت ہے۔ 2014ء میں بی جے ڈی نے 20 اور بی جے پی نے ایک سیٹ جیتی تھی۔ اڈیشہ میں بھی بہ یک وقت اسمبلی چناؤ ہوئے، جس میں بی جے ڈی کی اقتدار پر واپسی یقینی معلوم ہورہی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اڈیشہ کے ووٹروں نے سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے ریاست اور مرکز دونوں جگہ جوں کا توں موقف قائم رکھا ہے۔ بی جے پی کی حلیف جنتادل (یونائیٹیڈ) بہار میں 40 میں سے 16 نشستوں پر آگے ہے۔ ترنمول کانگریس کو مغربی بنگال میں 42 نشستوں کے منجملہ 22 پر سبقت ہے جبکہ بی جے پی 19 میں آگے ہے جو 2014ء میں 2 کی عددی طاقت سے غیرمعمولی اچھال ہے۔ بایاں بازو کا اس ریاست میں صفایا ہوگیا جو کبھی اس کا قلعہ ہوا کرتا تھا۔ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے 20 سیٹوں پر آگے ہے جبکہ اے آئی اے ڈی ایم کے کو صرف 2 نشستیں ملتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کیرالا میں کانگریس زیرقیادت یو ڈی ایف 20 میں سے 18 نشستوں پر آگے ہے۔ 2014ء میں بی جے پی نے 282 سیٹ جیتے تھے اور کانگریس 2009ء میں 206 کے برخلاف تاریخ کی اقل ترین عددی طاقت 44 تک گھٹ گئی تھی۔