وطن کی شان سے کیا ان کو مطلب

,

   

انڈیا فار سیل … ایر انڈیا ، ٹاٹا کے حوالے
پدم بھوشن ، آزاد کا امتحان … بدھادیب نے کیا انکار

رشیدالدین
’’ بستی بسنا کھیل نہیں۔بستے بستے بستی ہے‘‘ ٹھیک اسی طرح کسی ملک کی ترقی بچوں کا کھیل نہیں۔ آزادی کے بعد 70 برسوں میں حکومتوں اور قومی قائدین کی کاوشوں کے نتیجہ میں ہندوستان دنیا کے کسی سپر پاور سے کم نہیں ہے۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ہندوستان نے دنیا کی رہنمائی نہ کی ہو۔ جدید ہندوستان کے معمار پنڈت جواہر لال نہرو ، خاتون آہن اندرا گاندھی اور کمپیوٹر انقلاب کے محرک راجیو گاندھی کے دور تک ملک میں عوامی شعبہ کے اداروں کا جال پھیلایا گیا۔ دفاع ، آبپاشی ، سائنس و ٹکنالوجی ، ہیلت ، فینانس، انفارمیشن ٹکنالوجی ، الغرض ہر شعبہ میں مایہ ناز اداروں کے قیام کے ذریعہ ملک کے اثاثہ جات میں اضافہ کیا گیا ۔ یہ وہ ادارے ہیں جن پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ حکمرانوں کا کام ملک کے اثاثہ جات میں اضافہ کرنا ہے نہ کہ انہیں فروخت کرنا۔ کسی بھی ادارہ کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اسی کو ہوتا ہے جس نے اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہوئے محنت کی ہو۔ جس کا کوئی رول ہی نہیں اسے اہمیت کا اندازہ کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی نشانیوں کو فروخت کرتے دیکھا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اداروں اور اثاثہ جات کی تعمیر میں جن کا کوئی رول نہ ہو ، اسے فروخت کرنے کا بھی کوئی غم نہیں ہوتا۔ کچھ یہی حال نریندر مودی حکومت کا ہے ۔ گزشتہ 7 برسوں میں اثاثہ جات میں اضافہ تو نہیں کیا جاسکا لیکن 70 سال کے اثاثہ جات کی فروخت کی مہم شروع کردی گئی ۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت خود اپنے اثاثہ جات کو فروخت کرنے لگ جائے تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ حکمراں نااہل ہیں جو اپنے اداروں کی اہمیت سے واقف نہیں۔ میک ان انڈیا کا نعرہ تو لگایا گیا لیکن ’’انڈیا فار سیل‘‘ کا بورڈ آویزاں کردیا گیا۔ ہر سال دو کروڑ روزگار کا وعدہ کیا گیا ۔ دراصل یہ نعرہ لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم کرنے کیلئے تھا۔ ایر انڈیا کو 18 ہزار کروڑ میں ٹاٹا گروپ کو فروخت کردیا گیا اور ایک اہم شہری ہوابازی کا ادارہ حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ایسے ادارہ کو جو خسارہ میں ہے، کوئی بھی بزنسمین خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ٹاٹا گروپ نے جب خریدا ہے تو وہ جانتا ہے کہ کس طرح ایر انڈیا کو منافع بخش ادارہ میں تبدیل کیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود حکومت نے خسارہ کے حالات پیدا کئے تاکہ فروخت کو جائز قرار دیا جاسکے۔ نریندر مودی نے اقتدار سے قبل اور اس کے بعد جو دلکش نعرے لگائے، ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ صرف نعروں کے ذریعہ عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش کی گئی۔ نعروں پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام نے مودی کو اقتدار تک پہنچایا لیکن نعروں کی اصلیت اب سامنے آرہی ہے۔ صنعتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کے نام پر اسٹارٹ اپ انڈیا اور اسٹانڈ اپ انڈیا کے نعرے لگائے گئے لیکن کسے پتہ تھا کہ یہ دراصل ’’سیل آف انڈیا‘‘ ہے ۔ اداروں کی ترقی میں ملازمین کا رول ہوتا ہے جو ادارہ کی خون جگر سے نشو نما کرتے ہیں۔ جب یہ ادارے نظروں کے سامنے فروخت ہوجائیں تو دل پر کیا گزرے گی۔ آشیانے کے بکھرنے کا احساس اور صدمہ تو اُن پرندوں سے پوچھئے جو کاڑی کاڑی جوڑ کر گھونسلہ بناتے ہیں لیکن تیز ہوائیں اور طوفان کے بے رحم ہاتھ انہیں اجاڑ دیتے ہیں۔ آخر مودی کو کارپوریٹ گھرانوں سے کیا ہمدردی ہے؟ مبصرین کے مطابق چیف منسٹر گجرات سے لے کر وزیراعظم تک کے سفر میں کارپوریٹ اداروں کی بڑی مدد رہی اور کارپوریٹ گھرانوں کی سواری کے ذریعہ مودی وزارت عظمیٰ تک پہنچ گئے ۔ کارپوریٹ ادارے صرف کسی ایک شعبہ میں نہیں بلکہ قومی میڈیا کو بھی خرید چکے ہیں اور دنیا کو دکھایا وہی جاتا ہے جو مودی چاہتے ہیں۔ امبانی ، اڈانی اور ٹاٹا یہ محض نام نہیں بلکہ مودی حکومت کے تین اہم ستون ہیں۔ دراصل ہندوستان نے اچھے دن کے نعرہ کو سمجھنے میں غلطی کردی جس کا خمیازہ انڈیا فار سیل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ انگریز تجارت کے نام پر ہندوستان آئے تھے اور قابض ہوگئے ۔ تاریخ شائد اپنے آپ کو دہرائے گی اور ملک پر کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہوگا ۔ انڈیا فار سیل کے ایجنڈہ میں انڈین ریلویز ، ایل آئی سی ، بی ایس این ایل ، قومیائے ہوئے بینکس ، برقی پراجکٹس زیر زمین معدنی ذخائر اور دفاعی شعبہ کے ادارے شامل ہیں۔ ریلویز ، بی ایس این ایل اور بینکوں کا نمبر جلد آسکتا ہے کیونکہ حکومت نے درپردہ تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کا بھی سودا کرلیا جائے گا ۔ دفاعی شعبہ کے کئی اداروں پر کارپوریٹ شعبہ کی نظریں ہیں۔ داخلی سلامتی کے معاملہ میں خانگی مداخلت کا مطلب پھر ایک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں ملک کو حوالے کرنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ادارے آج خسارے میں ہیں، اس وقت کیوں نہیں تھے جب یو پی اے کی حکومت تھی ۔ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی خسارہ کا مطلب درپردہ سازش کا حصہ ہے۔ نریندر مودی اقتدار پر رسائی کا احسان کارپوریٹ اداروں کو چکانے کے لئے برائے فروخت کی مہم پر ہیں۔ یہ ادارے خسارے میں ہیں تو اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ خانگی شعبہ کے ہاتھ میں وہ منافع بخش ہوجائیں گے ؟ اچھا ہوا نریندر مودی کو حکومت کے خسارہ کا خیال نہیں ہے ورنہ ایک ایک وزارت کو بھی خانگی شعبہ کے حوالے کرنے تیار ہوجاتے۔ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کا نعرہ آج سمجھ میں آنے لگا ہے ۔ مودی سے ملک کا بھلا تو نہیں ہوا لیکن عوامی شعبہ کے اداروں کی فروخت کا فلڈ گیٹ کھل چکا ہے جو کسی اور حکمراں کے بس کی بات نہیں تھی ۔ عوامی شعبہ کے اداروں کی فروخت کا سلسلہ جاری رہا تو متعلقہ سرکاری محکمہ جات اور وزارتوں کا وجود بے معنیٰ ہوکر رہ جائے گا اور مرکزی کابینہ میں وزیراعظم کے سا تھ صرف کارپوریٹ اداروں کے نمائندے دکھائی دیں گے ۔ نوٹ بندی سے لے کر آج تک مودی حکومت نے عوام کا کوئی بھلا نہیں کیا بلکہ صرف کارپوریٹ گھرانوں کی خدمت کی۔ بیرون ملک سے کالا دھن لانے کا وعدہ کرنے والے مودی نے مخصوص صنعت کاروں کو ملک لوٹ کر فرار ہونے کا موقع فراہم کیا۔ نورو مودی ، وجئے مالیا اور میہول چوکسی کو آج تک ہندوستان لانے میں حکومت ناکام رہی ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں 36 صنعت کار ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ دیش بھکتی کا دعویٰ کرنے والے مودی اور بی جے پی قائدین ملک کو فروخت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ملک کے سیویلین اعزازات پر سیاست کرنا انتہائی بدبختانہ ہے لیکن بی جے پی اور مودی حکومت کے پاس ہر معاملہ کو سیاسی رنگ دینے کی بھرپور آزادی ہے۔ سیویلین ایوارڈس کو سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ملک کے لئے غیر معمولی خدمات کے عوض میں پدم شری ، پدم بھوشن اور پدم وبھوشن اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ مودی نے اس مرتبہ کانگریس اور سی پی ایم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔ کانگریس کے سینئر قائد غلام نبی آزاد اور مغربی بنگال کے سابق چیف منسٹر بدھا دیب بھٹاچرجی کو پدم بھوشن اعزازات کا اعلان کیا۔ مودی کو دراصل اپنی تیسری میعاد کی فکر ہے اور وہ دو اہم اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرتے ہوئے پھوٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سی پی ایم قائد بدھا دیب نے اعزاز کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی کے منصوبہ کو ناکام بنادیا لیکن غلام نبی آزاد ابھی بھی مودی کی تعریفوں کے اثر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ فروری 2021 ء کو راجیہ سبھا کی رکنیت سے سبکدوشی کے موقع پر مودی نے آنکھوں میں آنسو لاکر غلام نبی آزاد کو وداع کرنے کی جو ڈرامہ بازی کی تھی ، اسی دن سے غلام نبی آزاد اپنی پارٹی کانگریس سے دور ہونے لگے۔ غلام نبی آزاد کی قومی سطح پر خدمات کے لئے پدم بھوشن کا اعزازکم ثابت ہوگا اور انہیں اپنی خدمات کا سرٹیفکٹ بی جے پی سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمر کے اس حصہ میں کانگریس سے بغاوت اور نئی پارٹی کے قیام کی سرگرمیاں غلام نبی آزاد کو زیب نہیں دیتیں۔ چیف منسٹر کشمیر ، مرکزی وزیر کے علاوہ پارٹی کی سطح پر مختلف ریاستوں کی ذمہ داری اور پارٹی میں اہم عہدے یہ تمام غلام نبی آزاد کے شایان شان تھے ۔ کانگریس قیادت نے ہمیشہ انہیں قریب رکھا لیکن مودی حکومت کے اعزاز کو قبول کرنا نہرو گاندھی خاندان کے بھروسہ کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ جس حکومت نے کشمیریت کو نشانہ بنایا اور 370 کی برخواستگی کے ذریعہ خصوصی موقف ختم کیا اور کشمیر کا ریاست کا درجہ برخواست کردیا ، ایسی حکومت کا اعزاز قبول کرنا کشمیریت اور کشمیری عوام کے جذبات کی توہین ہوگی۔ غلام نبی آزاد کو جیوتی باسو اور بدھا دیب بھٹاچرجی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مودی حکومت کے اعزاز کو مسترد کرنا چاہئے ۔ غلام نبی آزاد کا امتحان ہے کہ نریندر مودی کو اہمیت دیں گے یا پھر کشمیری عوام کو۔ ممتاز شاعر حیدر علوی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
وطن کی شان سے کیا ان کو مطلب
انہیں دکھتی وطن کی شان کب ہے