وقت سے آنکھ ملانے کی حماقت نہ کرو

,

   

یکساں سیول کوڈ … 2024 الیکشن کا نیا ایجنڈہ
مسلم مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی بے حسی

رشیدالدین

لوک سبھا چناؤ 2024 ء اور یکساں سیول کوڈ۔ بی جے پی نے لوک سبھا الیکشن کا ایجنڈہ آخرکار طئے کردیا ہے ۔ ملک میں مودی میجک دم توڑ رہا ہے اور بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس نے اعتراف کیا کہ مودی کا جادو بے اثر ہوچکا ہے اور مودی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑنا ہوگا۔ کرناٹک کی شکست نے مودی میجک کا بھرم توڑ دیا اور ہندوتوا ایجنڈہ کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ بی جے پی کو 2024 ء لوک سبھا چناؤ ے لئے ایجنڈہ کی تلاش تھی اور یکساں سیول کوڈ آخرکار انتخابی ایجنڈہ بن چکا ہے۔ بی جے پی کے ایجنڈہ میں ہمیشہ سے رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور دفعہ 370 شامل رہے۔ اٹل بہاری واجپائی کی مخلوط حکومت کی مجبوری کے تحت ایک بھی مسئلہ پر فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ نریندر مودی نے 9 برسوں میں واضح اکثریت کی آڑ میں دفعہ 370 کی برخواستگی اور رام مندر کی تعمیر کو حقیقت میں تبدیل کردیا ہے ۔ ایجنڈہ سے ہٹ کر مسلمانوں کی حمیت اور غیرت اسلامی کی جانچ کے لئے طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کردی گئی ۔ شریعت اسلامی میں یہ کھلی مداخلت تھی لیکن مسلمان اور ان کی قیادتوں کی بے حسی نے حوصلوں اور ہمت کو اس قدر بلند کردیا کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ دراصل قانون شریعت اور مسلم پرسنل لا کا خاتمہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں تمام مذاہب کیلئے یکساں قوانین ہوں گے، ظاہر ہے کہ وہ قوانین اسلام کے برخلاف رہیں گے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ہندو راشٹر کی سمت پہلا قدم ہوگا۔ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کا آخری حربہ ہندو راشٹر کی تشکیل ہے جہاں مسلمان اور دیگر اقلیتیں محکوم اور دوسرے درجہ کے شہری شمار کئے جائیں گے۔ عبادات اور عائلی مسائل کے سلسلہ میں ملک کے قانون کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ حکومت اور عدلیہ کو تمام مذاہب کے احترام کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ رام مندر کی تعمیر کے لئے جس طرح سپریم کورٹ کی مدد حاصل کی گئی اور 370 کی برخواستگی کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا ، ٹھیک اسی طرح یکساں سیول کوڈ کا شوشہ چھوڑنے کے لئے لاء کمیشن کا سہارا لیا گیا ہے۔ مسلمانوں اور اسلام سے نفرت ان دنوں عروج پر ہے۔ ملک میں کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کے تار مسلمانوں سے جوڑ دیئے جاتے ہیں۔ سنگھ پریوار چاہتا یہی ہے کہ مسلمانوں کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور کردیا جائے تاکہ ہندو اور دیگر تہذیبوں کے اثر کو مسلمان بآسانی قبول کرلیں۔ نیشنل لاء کمیشن نے سیاسی پارٹیوں ، عوام اور سماج کے مختلف گروپس سے یکساں سیول کے بارے میں رائے طلب کی ہے۔ رائے پیش کرنے کیلئے 30 دن کی مہلت دی گئی جس کے بعد اکثریتی رائے کی بنیاد پر حکومت کو تجاویز پیش کی جائیں گی۔ ملک کے موجودہ حالات جہاں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ پر حکومت کا دباؤ ہے اور جمہوریت کے چوتھے ستون صحافت (میڈیا) کو گودی میڈیا میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسے میں لاء کمیشن کی سفارشات حکومت کی مرضی کے خلاف کیسے آسکتی ہیں۔ کمیشن کے صدرنشین کے عہدہ پر کرناٹک ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی کے تقرر کے وقت ہی یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ یکساں سیول کوڈ کے ایجنڈہ کے ساتھ عہدہ کا تحفہ دیا گیا ہے ۔ بابری مسجد مقدمہ کے تین ججس کو بھی فیصلہ کا انعام دیا جاچکا ہے ۔ جسٹس ترون گگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت ، جسٹس عبدالنذیر کو آندھراپردیش کی گورنرشپ اور جسٹس اشوک بھوشن کو نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبونل کا صدرنشین مقرر کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گزشتہ لاء کمیشن نے یکساں سیول کوڈ پر عوام ، سیاسی اور سماجی گروپس سے رائے حاصل کرتے ہوئے 2018 ء میں حکومت کو رپورٹ پیش کردی تھی تو پھر دوبارہ رائے حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ گزشتہ کمیشن نے کہا تھا کہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ عوام کی خواہش ہے ۔ لاء کمیشن کی رپورٹ مودی دور حکومت میں پیش کی گئی تھی لیکن پانچ سال بعد دوبارہ سروے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ کیا مودی نے پانچ برسوں میں عوامی رائے کو تبدیل کردیا ہے یا پھر اپنی مرضی کے مطابق رائے حاصل کرنے کی یہ کوشش ہے۔ گزشتہ لاء کمیشن کو 75000 نمائندگیاں وصول ہوئی تھیں۔ کمیشن کی سفارشات کو تین سال کی تکمیل کا بہانہ بناکر موجودہ کمیشن نے دوبارہ رائے عامہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلہ کے درپردہ حکومت کی سازش کی بو آرہی ہے۔ لاء کمیشن نے طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی سے قبل عوامی رائے حاصل کیوں نہیں کی؟ این آر سی ، این پی اے اور سی اے اے کے نفاذ کی تیاری سے قبل لاء کمیشن نے عوام کی رائے حاصل نہیں کی۔ کشمیری عوام کی رائے کے برخلاف دفعہ 370 کو ختم کردیا گیا اور اس وقت یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ کشمیری عوام آخر چاہتے کیا ہیں۔ اب جبکہ لوک سبھا چناؤ سے قبل ووٹ بینک مستحکم کرنے اور مذہب کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنا ہے ، لہذا لاء کمیشن کی آڑ میں رائے عامہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام کی رائے بھلے ہی کچھ ہو لیکن کمیشن کی رپورٹ وہی آئیگی جو حکومت چاہتی ہے۔ حکومت کی لکھی رپورٹ کو کمیشن کا اسٹامپ لگاکر بھیج دیا جائے گا۔ یکساں سیول کوڈ سے صرف مسلم پرسنل لا نہیں بلکہ دیگر مذہبی اقلیتوں کے پرسنل لاز کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں قبائلی گروپس کی روایات اور رسومات مختلف ہیں جن کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا فیصلہ سماج میں نئی بے چینی پیدا کرے گا اور مذہبی اقلیتوں اور قبائل کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یکساں قوانین کے نفاذ کا ذکر آئے تو ہمیں گاندھی جی کی وہ نصیحت یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے حکمرانوں سے کہا تھا کہ ہندوستان کو جنت نشان بنانا ہو تو حضرت عمرؓ کے طرز حکمرانی کو اختیار کریں۔
یکساں سیول کوڈ کے فتنہ سے مقابلہ کیلئے مسلمان کس حد تک تیار ہیں؟ اس سوال کا جائزہ لیں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ آزادی کے بعد سے مختلف تلخ تجربات کے قطع نظر صرف نریندر مودی حکومت کے 9 سالہ دور کا جائزہ لیں تو مسلم قیادتوں کی ناکامیوں کی طویل فہرست ہے۔ مودی حکومت نے مسلمانوں اور شریعت کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ بابری مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی لیکن قیادت صرف سپریم کورٹ کے احترام کے نام پر خاموش رہی۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی گئی لیکن مسلمانوں نے حکومت کے فیصلہ کو تسلیم کرلیا حالانکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا بنیادی مقصد شریعت اسلامی کا تحفظ کرنا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے گزشتہ 9 برسوں میں ماب لنچنگ ، لو جہاد ، حجاب ، حلال اور اس طرح کے کئی موضوعات کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ مسلمانوں کا یہ حال ہوچکا ہے کہ وہ خود کو ملک میں دوسرے درجہ کا شہری تسلیم کرچکے ہیں۔ کسی بھی ناانصافی اور ظلم پر مزاحمت کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ عام مسلمانوں کی اس حالت کے لئے سیاسی اور مذہبی قیادتیں ذمہ دار ہیں۔ ہم سابق میں بارہا ٹاملناڈو کی مثال پیش کرچکے ہیں جہاں کے غیرت مند عوام نے اپنی ایک ثقافتی روایت کو برقرار رکھنے کیلئے مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کو جھکنے پر مجبور کردیا ۔ ٹاملناڈو میں ہر سال ’’جلی کٹو ‘‘ کے نام پر جانوروں کی دوڑ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ جانوروں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کی درخواست پر سپریم کورٹ نے جلی کٹو پر پابندی عائد کردی جس کے خلاف سارا ٹاملناڈو ایک ساتھ سڑکوں پر نکل آیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف سپریم کورٹ کو فیصلہ واپس لینا پڑا بلکہ مرکزی حکومت نے قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل کردیا۔ کیا ملک کے مسلمان ٹاملناڈو کے عوام سے گئے گزرے ہیں کہ اپنی شریعت کے تحفظ کے لئے بھی سڑکوں پر آنے تیار نہیں۔ مسلم قیادتیں صرف بیان بازی تک محدود ہوچکی ہیں۔ بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ کے بعد جو صورتحال تھی وہ مایوس کن رہی۔ 2024 ء عام انتخابات سے قبل بی جے پی حکومت یکساں سیول کوڈ نافذ کردے تب بھی مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتوں پر سناٹا طاری رہے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا رابع ندویؒ کے بعد طفل مکتب میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ مخصوص چہروں کے ذریعہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی تنظیم جدید کی گئی اور ان چہروں کے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ پرسنل لا بورڈ نہ صرف اپنا اعتبار کھوچکا ہے بلکہ معتبر شخصیتوں سے خالی ہوچکا ہے۔موجودہ قیادت کو شریعت کے تحفظ سے زیادہ اصلاح معاشرہ مہم کی فکر ہے کیونکہ مسلمانوں میں خود کو زندہ رکھنے کیلئے اصلاح معاشرہ سے بڑھ کوئی اور نعرہ نہیں ہوسکتا۔ اس مہم میں نہ ہی کوئی جدوجہد ہے اور نہ تکلیف۔ یکساں سیول کوڈ دراصل ایمان پر حملہ ہے اور جب کبھی اسلام کو خطرہ لاحق ہو تو ہر مسلمان پر مزاحمت لازم ہوجاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتوں کو عام مسلمان کس طرح متحرک ہونے پر مجبور کریں گے۔ موجودہ حالات پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
وقت سے آنکھ ملانے کی حماقت نہ کرو
وقت انسان کو نیلام بھی کرسکتا ہے