وقت ہے محاسبہ کا||از: سید شعیب حسینی ندوی

,

   

بھارت رفتہ رفتہ انتہا پسند فاشسٹ طاقتوں کی گرفت میں جاتا جا رہا ہے، بلکہ انکے ہاتھوں گروی رکھے جانے کے قریب ہے، چند واقعات جو سیاسی رن میں منظر عام پر آتے ہیں یا جو میڈیا میں موضوع بحث بن جاتے ہیں وہ اسکا عشر عشیر بھی نہیں جو تہہ خانہ کے کسی گوشہ میں نگاہوں سے اوجھل رہ جاتے ہیں، سازشوں کا طومار ہے، مکر و فریب کا دور دورہ ہے، دجل و دجالیت بام عروج پر ہے، دھاندلی اور دھوکہ دھڑی بے باکی کے ساتھ بروئے کار ہے، ظلم و زیادتی کا ننگا ناچ ہے، گویا دجال مسند امارت پر جلوہ گر ہو چکا ہے۔

یہ تو ہے موجودہ منظر نامہ جس میں ذرا مبالغہ آمیزی یا غلط بیانی نہیں نہ ہی بیجا ڈر دلانے کی کوشش ہے، لیکن *اصل بات جس پر ہم مسلمانانِ ہند کو توجہ کم دلائی جاتی ہے یا ہمیں اس سے غفلت برتنے میں عافیت لگتی ہے وہ تاریخ کا دوسرا ورق ہے جو اس ملک کے چپہ چپہ پر ۱۰۰ سال میں بطور خاص ثبت ہوا ہے، قصبہ قصبہ، گاؤں گاؤں جس کی گواہی پیش کر رہا ہے۔

پہلے ہم اپنی تاریخ اور اس دور میں کی گئی کوششوں پر نگاہ ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ *ہم حال میں جینے والی قوم ہیں جسے کل سے کوئی سروکار نہیں، ماضی کے پرشکوہ قصے ہمیں پسند ہیں لیکن مستقبل کے لائحۂ عمل سے کوئی مطلب نہیں، اپنی عظمت و جلالت کے زبانی مینارے ہیں لیکن زمینی نقوش کھنڈرات ہیں، اپنے اپنے حلقے کی بڑی شخصیت کے مناقب کی طویل ترین داستانیں ہیں لیکن امت کے عروج و زوال کی دو سطریں بھی نہیں، ملی مسائل کے رہنما قصیدہ خوانی کو تنقید پر ترجیح دیتے ہیں، حلقہ واریت کو تنظیم پر غالب رکھتے ہیں، تھنک ٹھینک ہے نہیں اور اگر ہے بھی تو ٹوٹی ہوئی بے اثر آواز رکھتا ہے جسکو کسی حلقہ میں کم پذیرائی حاصل ہوتی ہے کیونکہ اسکی تھنکنگ جبتک کسی حلقہ کو غالب ثابت کرنے کے لیے مصروف عمل نہیں ہوتی اسے وہاں جگہ نہیں ملتی، مدارس میں توجہ شخصیت سازی کے بجائے حلقۂ ارادت کی مقابلہ آرائی پر رہتی ہے، نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پر جمود و تعطل کے گہرے بادل چھائے رہتے ہیں، کبھی کبھی کانفرنسیں ہو جاتی ہیں لیکن خرد و نوش کے آگے مطلوبہ ثمرات سے خالی، اہل ثروت خرچ کرنے پر تو رضامند لیکن داد و دہش کے خواستگار، عمارت کی افادیت سے زیادہ اس پر کندہ نام کی فکر، غیر منظم تقسیم سے بیش بہا سرمایہ کی ارزانی، محلات کا ناقص استعمال، اہل سیاست کی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حاشیہ برداری اور کاسہ لیسی، شخصی مفادات کو ملی ترجیحات سے اوپر رکھنے کی روایت، پگڑی اچھالنے اور ٹانگیں کھینچنے کا قومی کھیل اور الگ الگ جماعتوں اور حلقوں میں غیر ملی مسائل پر رسہ کشی،* یہ ہماری تصویر کا وہ رخ ہے جس پر گفتگو کرنے سے گریز کرنے کی عادت ہمیں پڑ چکی ہے اور جو جلدی ہضم کرنا دشوار ہے، لیکن خیال رہے اس رخ کو دکھانے کا مقصد تصویر کے دوسرے مثبت رخ کا انکار نہیں ہے، یقینا قربانیوں اور جانفشانیوں کی بھی دلکش داستان ہے، البتہ اس کے یہاں ذکر کی گنجائش نہیں کیونکہ آج کا محاسبہ کا دور ہے، اور ڈفلی بجانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ بہت ہے۔

ہمارے مد مقابل وہ قوم ہے جس نے تقریبا ایک صدی زمین پر اتر کر کام کیا ہے، گھر گھر مشترک فکر کے ساتھ پہنچنے کی کوشش کی ہے، نیچے سے اوپر کی طرف اٹھنے کا فطری راستہ اپنایا ہے، وسائل معیشت اور ذرائع ابلاغ پر کنٹرول پانے کے تمام راستے تلاش کیے ہیں، اپنا تنظیمی ڈھانچہ غیر جانبدانہ مضبوط اصولوں پر قائم رکھا ہے، تنظیمی مفادات پر شخصی ترجیحات کو ابھرنے کا موقعہ نہیں دیا ہے، بنیادی مقاصد کی حصولیابی میں بڑے سے بڑے عہدہ دار کی قربانی گوارا کی ہے، مشن کو کمزور ہونے نہیں دیا اور کسی شخصیت کا رہین منت بننے نہیں دیا، تازہ دم قیادت کو تیار کرنے کا عمل ہر آن جاری رکھا، نوجوانوں کی ذہن سازی کا مستحکم پروگرام بنایا اور بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، اپنے مد مقابل کی کمزوریوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور نشانۂ تیر و تفنگ بنانے میں انکا بھر پور استعمال کیا، اپنے ہزارہا ہزار سنگین اختلافات کے باوجود ایک ایجنڈے کے تحت قوم کو متحد کرنے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔

یہ اس قوم کی تصویر کا ایک رخ ہے جو ملک میں ہم سے کہیں کم ہے لیکن اس نے ہمارےمقابلہ میں اکثریت کو اپنا بنانے میں کامیابی حاصل کرلی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ نہیں جہاں انکی غیر انسانی و غیر اخلاقی سرگرمیوں کی تاریک سطور نہیں، لیکن قوم کے عروج وتنزل کے اسباب پر جب گفتگو ہوگی تو تجزیہ انہیں پہلؤوں کا کیا جائے گا جو ظاہری اعتبار سے مؤثر بنتے ہیں۔

رکھیو مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے