ون نیشن ون الیکشن سے جمہوریت کا نقصان

   

ایس وائی قریشی
سابق چیف الیکشن کمشنر
مودی حکومت ملک میں ون نیشن ون الیکشن نافذ کرنا چاہتی ہے اور اس کے نفاذ کے امکان کا جائزہ لینے کیلئے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جسے اپوزیشن نے ملک کے وفاقی نظام پررکیک حملہ قرار دیا ہے۔’ ون نیشن ون الیکشن‘ جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔ (آپ کو بتادیں کہ مسٹر ایس وائی قریشی کئی کتابوں کے مصنف ہیں ) جہاں تک ون نیشن ون الیکشن سے متعلق تجویز کا سوال ہے یہ تجویز کوئی نئی نہیں ہے یا وزیر اعظم نریندر مودی نے ہی پیش کی ہو۔ ایل کے اڈوانی جی نے 2010 میں یہ تجویز پیش کی تھی، اس سے پہلے مسٹر وسنت ساٹھے نے بھی بہت برسوں پہلے یہ تجویز پیش کی تھی۔ مودی جی نے 2014 میں یہ تجویز پیش کی اور اس کے دس سال بعد بھی انہوں نے بار بار کہا کہ اس موضوع پر مباحث ہونے چاہیئے اور اب مباحث ہورہے ہیں۔ دو تین کمیٹیوں نے اس تجویز کا جائزہ لیا، ہر کمیٹی نے واضح طور پر اس سفارش یا تجویز کی تائید و حمایت نہیں کی۔ لاء کمیشن نے 2018 میں یہ کہا کہ اس میں تو دستوری ترمیم کرنی پڑے گی، 5 ایسی دفعات ہیں جنہیں تبدیل کرنا پڑے گا۔ آرٹیکل 83 اور 85، 172اور 174 کے ساتھ آرٹیکل 354 اس کے علاوہ دستور کے دسویں شیڈول میں تبدیلی لانی پڑے گی، قانون عوامی نمائندگی میں ترمیم کرنے پڑے گی۔Roles of Procedure جو لوک سبھا اور اسمبلیوں سے متعلق ہے انہیں تبدیل کرنا پڑے گا۔ Rules وغیرہ یہ تو آسان کام ہے لیکن دستوری ترامیم تو مشکل ہے۔ ویسے بھی آئیڈیا ریاستوں کی یونین ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاستوں کی ایک یونین بن گئی ہے( ون نیشن ون الیکشن کا نظریہ وفاقی ڈھانچہ کو متاثر کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی جی جب سے آئے ہیں ان دس برسوں میں 5 بار سفارش کی گئی لیکن کبھی بھی اس طرح اس کی چرچہ نہیں ہوئی جیسے اب ہورہی ہے ) میں میڈیا میں دیکھ رہا ہوں سیاسی ملاقات کو تو میں نظر انداز کرتا ہوں لیکن اس میں یہ دیکھا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے بار بار کہ مودی کی شخصیت اتنی غالب ہے اور ان کا نام بچہ بچہ کو پتہ ہے اور ان کی وجہ سے ان کی شکل کی وجہ ان کے نام سے ہی الیکشن جیتا جاسکتا ہے اور جیتاجاتا رہا ہے، اس میں اگر ایک ساتھ انتخابات کروائے جاتے ہیں تو وہ مزید غالب ہوں گے، ان کی اجارہ داری اور بڑھ جائے گی۔ پنچایت کے الیکشن میں تو سرپنچ اور اس کی شکل لوگوں کے سامنے ہوگی ، اسمبلی انتخابات میں کسی مقامی لیڈر کی شکل ہوگی لیکن جب قومی انتخابات ہوتے ہیں تو اس میں وزیر اعظم مودی جی کی شکل ہی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر بہت ہوتا ہے۔ اب ون نیشن ون الیکشن کا جہاں تک سوال ہے اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے اس بارے میں 1999 میں ایک مطالعاتی جائزہ کا اہتمام کیا گیا جس میں 1999 سے 2014 تک کے انتخابات کا جائزہ لیا گیا جس سے پتہ چلا کہ ہر لوک سبھا انتخابات کے ساتھ چار ، پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہوتے رہے اور اس حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ محدود پیمانہ پر ایک ساتھ انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ووٹرس اور ووٹنگ کا رویہ کیا تھا، اس میں یہ پایا گیا کہ اگر ایک ساتھ انتخابات جہاں پر ہوئے وہاں 77 فیصد لوگوں نے ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیا ، پھر اسی اسٹڈی میں یہ لکھا گیا کہ اگر چار، پانچ مہینے بعد انتخابا ت ہوئے تو 77 فیصد سے گھٹ کر 61 فیصد رہ گیا لیکن اسٹڈی سے بالا تر ہوکر دیکھئے کہ اگر آٹھ، دس ماہ میں اور سال بھر کا وقت ہے تو آپ دیکھیئے دہلی میں کیا ہوا تھا ؟ ایک الیکشن ہوا، اور ایک ہی پارٹی نے سارے اسمبلی حلقوں پر قبضہ کیا۔ کچھ دن بعد الیکشن ہوا تو دوسری پارٹی نے لوک سبھا کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی تو رائے دہندوں نے ایک ہی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا کیونکہ رائے دہندہ کا جو ذہن ہے وہ بالکل آزاد ہے۔ اس کے علاوہ مسائل بھی گڈ مڈ ہوئے، مثال کے طور پر اگر آپ گاؤں میں رہتے ہیں تو گاؤں میں آپ کے سامنے کیا مسائل ہیں‘ آپ کا پرائمری اسکول کیسا چل رہا ہے، آپ کی آنگن واڑی ڈسپنسری، آپ کی گلی کے سامنے کی نالیاں کیسے چل رہی ہیں یہ اہم ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے، میرے آپ کے گھر کے سامنے گندہ پانی جمع ہوگیا ہے، کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے، سرپنچ صاحب کچھ نہیں کئے، آپ اس کی فکر کریں گے کہ خارجہ پالیسی اور یوکرین میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے اس پر بات کریں گے، اس کی فکر کریں گے؟ لوگوں کی فکر مختلف سطحوں پر الگ الگ ہوتی ہے، مسائل گڈ مڈ نہیں ہونے چاہیئے اس لئے علیحدہ علیحدہ انتخابات میں یہ فائدہ ہے کہ مسائل خلط ملط نہیں ہوتے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ راجھستان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں بھی انتخابات ہوئے تھے ، ان تینوں میں کوئی دوسری پارٹی اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوکر آئی تھی۔ کچھ دن بعد لوک سبھا انتخابات ہوئے اور ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو کامیابی ملی ( لوک سبھا انتخابات میں ) تو الگ الگ انتخابات میں رائے دہندوں نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔ میں نے سطورِ بالا میں جس اسٹڈی کا ذکر کیا اس میں واضح طور پر بتایا کہ ایک ساتھ انتخابات اور الگ الگ انتخابات میں رائے دہندوں کا ردعمل اور رویہ مختلف رہا۔ دیکھئے، ایک ساتھ انتخابات کے بارے میں حکومتوں کا یہ موقف ہوتا ہے کہ انتخابی مصارف کم ہوجائیں گے۔ اگر دیکھا جائے تو الیکشن کا خرچ محدود ہونا چاہیئے۔
اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت چلانے والی پارٹیاں عوام کی بہبود کیلئے برسوں اقدامات نہیں کرتیں لیکن جب انتخابات سر پر آتے ہیں تو عین انتخابات سے قبل عوامی بہبود کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں اعلانات کئے جاتے ہیں، انہیں عوام کی بہبود کا دس، گیارہ ماہ قبل خیال کیوں نہیں آتا۔ جہاں تک ون نیشن ون الیکشن تجویز اور اس کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی کی تشکیل کا سوال ہے مجھے یقین ہے کہ جو کمیٹی بنی ہے وہ تمام فریقین، سیاسی جماعتوں اور قائدین کو طلب کرکے ان کے خیالات اور رائے سے آگہی حاصل کرے گی جیسا کہ سابق میں لاء کمیشن نے سب کو طلب کرکے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی تھی‘ اور یہ کمیٹی کیا نئی چیز لیکر آئیگی ہم بھی بے چینی سے اس کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے چار کمیٹیاں ناکام ہوگئی تھیں‘ اس کمیٹی کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے، اگر یہ کمیٹی مسئلہ کا کوئی حل ٹڈھونڈ لائے تو اچھی بات ہے۔ ایک بات اور ہے کہ کمیٹی رپورٹ لکھتی ہے اور اکثر رپورٹس کوڑے دان کی نذر کردی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ صدارتی عہدہ کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ رام ناتھ کووند جیسے شریف النفس شخص نے کمیٹی کی صدارت کیسے قبول کی اس پر مجھے خود حیرت ہے۔ کمیٹی میں وہ لوگ شامل ہیں جن لوگوں نے ون نیشن ون الیکشن کی تائید و حمایت کی۔