وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان چھوڑدیں ہم

,

   

شریعت پر سناٹا… شہریت پر ہنگامہ
بابری مسجد زمین دوز … رام مندر فلک بوس

رشیدالدین
مقننہ اورعاملہ سے جب انصاف نہ ملے تو عدلیہ عوام کیلئے امید کی آخری کرن ہوتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کئی تاریخی فیصلوں کے ذریعہ عدلیہ نے اپنی آزادی اور غیر جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔ جب کبھی مقننہ اورعاملہ کے فیصلوں نے جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کیا ، عدلیہ نے جمہوریت کے تیسرے ستون کی حیثیت سے دستور اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھا لیکن حالیہ عرصہ میں عدلیہ سے انصاف کے سلسلہ میں عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ کے ججس نے عدلیہ میں بڑھتی سرکاری مداخلت پر کھل کر اعتراض جتایا تھا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ بعض ججس نے میڈیا میں بات کی اور ان پر دباؤ کی شکایت کی۔ مخصوص مقدمات کی سماعت کیلئے حکومت کے پسندیدہ ججس کے انتخاب کا معاملہ بھی منظر عام پر آیا ۔ گزشتہ دنوں بعض حساس مسائل پر سپریم کورٹ کے رویہ سے قانون کے ماہرین میں مباحث جاری تھے کہ سپریم کورٹ مرکز کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پر حکم التواء دینے سے انکار کردیا۔ 59 درخواستوں کو سماعت کیلئے قبول کرتے ہوئے مرکز کو نوٹس جاری کی اور آئندہ سماعت 22 جنوری کو مقرر کی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون پر ملک بھر میں احتجاج دن بہ دن شدت اختیار کر رہا ہے۔ عدلیہ بھی یقینی طور پر صورتحال سے باخبر ہوگی۔ اس کے باوجود درخواست گزاروں کو مایوسی ہوئی۔ ملک میں شہریت قانون سے زیادہ اہم کوئی اور مسئلہ نہیں ہے اور قانون کو چیلنج کرتے ہوئے ایک دو نہیں بلکہ 59 درخواستیں داخل کی گئیں ۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کو ریلیف دینا مناسب نہیں سمجھا اور معمول کے عام مقدمات کی طرح مرکزی نوٹس جاری کر کے سماعت کو ایک ماہ کے لئے ٹال دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شہریت قانون پر صورتحال کی سنگینی دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ از خود مداخلت کرتی جوکہ اس کے اختیارات میں شامل ہے۔ اب دیگر مقدمات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا۔ کشمیر سے 370 کی برخواستگی کے خلاف درخواستوں کو بھی سماعت کیلئے قبول کرتے ہوئے طویل قانونی کشاکش کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جس طرح جرائم کے معاملات میں فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیا جاتا ہے ، اسی طرح دستور سے متعلق امور کے لئے مستقل طور پر دستوری بنچ قائم رہے جو فاسٹ ٹریک کورٹ کی طرح طئے شدہ مدت میں فیصلہ سنادے۔ اس طرح عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے ، ورنہ ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار‘‘ کا اصول یہاں لاگو ہوگا۔ مبصرین کا احساس ہے کہ عدلیہ بھی دباؤ سے آزاد نہیں ہے ۔

ایودھیا تنازعہ میں 40 دن تک روزانہ سماعت کے ذریعہ ثبوت ، دلیل اور گواہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آستھا کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا گیا ۔ اتنا ہی نہیں نظرثانی درخواستوں کو یکلخت مسترد کردیا گیا ۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سارا ملک احتجاج میں ڈوب چکا ہے۔ کئی علاقے جل رہے ہیں اور کئی بے قصوروں کی جان چلی گئی لیکن سپریم کورٹ فوری سماعت کیلئے تیار نہیں ۔ 370 اور شہریت قانون کے مقدمات پتہ نہیں مہینوں چلیں گے یا برسوں ؟ حکومت تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی ، اگر عدلیہ سے بروقت انصاف نہ ملے تو عوام آخر کدھر جائیں گے ۔ سپریم کورٹ نے جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس کی بربریت کے معاملہ میں مداخلت سے انکار کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کی ہدایت دی۔ ملک کے قومی اور علاقائی غیر جانبدار نیوز چیانلس پر طلبہ بالخصوص لڑکیوں کے ساتھ بربریت کے ویڈیو دکھائے گئے۔ بین الاقوامی میڈیا اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے پولیس ظلم کی داستانوں کو بیان کیا لیکن سپریم کورٹ نے سماعت نہیں کی ۔ دوسری طرف تلنگانہ میں لیڈی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل کے چار ملزمین کی انکاؤنٹر میں ہلاکت کے خلاف نہ صرف فوری سماعت کی بلکہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی قیادت میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انکاؤنٹر فرضی تھا یا حقیقی، اس کے قطعی نظر یہ ایسا معاملہ تھا جس میں خاطیوں کو پھانسی کے حق میں ملک بھر میں احتجاج جاری تھا ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کی تحقیقات اور تلنگانہ ہائی کورٹ میں مقدمہ کے باوجود سپریم کورٹ نے نہ صرف مداخلت کی بلکہ انسانی حقوق کمیشن کی تحقیقات اور ہائی کورٹ کی سماعت پر روک لگادی۔ اس معاملہ میں ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کی ہدایت نہیں دی گئی جبکہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر دوران تھا۔ ملک کی دو یونیورسٹیز میں طالبات کے ساتھ پولیس کے ظالمانہ اور جانوروں سے بدتر غیر انسانی سلوک کے خلاف سماعت سے انکار پر عوامی اور قانونی حلقوں میں حیرت اور مایوسی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا طالبات سے زیادہ ان ملزمین کی اہمیت ہے جو سماج کو رسواء کرنے والے جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہیں؟
شہریت ترمیمی قانون نے ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو علحدہ کردیا گیا جبکہ دیگر اقلیتی طبقات کو ہندوؤں کے ساتھ شامل کرتے ہوئے شہریت کی پیشکش کی گئی۔ تین پڑوسی ممالک افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والوں کو شہریت کا پیشکش کرنے کے باوجود ان ممالک کے ہندو اور دیگر اقلیتی طبقات خود کو محفوظ تصور کرتے ہوئے ہندوستان کی پیشکش کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے ہندوستان سے بنگلہ دیشی شہریوں کی فہرست مانگی ہے لیکن حکومت ہند کے پاس ایسی کوئی فہرست تیار نہیں ۔ بنگلہ دیشی وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان کی معیشت سے زیادہ مستحکم بنگلہ دیش کی معیشت ہے۔ لہذا ہندوستان سے غیر قانونی طور پر لوگ بنگلہ دیش میں داخل ہورہے ہیں۔ آخر مسلمانوں کا قصور کیا ہے کہ انہیں قانون میں جگہ نہیں دی گئی۔ ملک کی آزادی سے لے کر بیرونی زر مبادلہ میں مسلمانوں کی حصہ داری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ مغربی ممالک ہوں یا خلیجی ممالک ، وہاں کے غیر مقیم ہندوستانی مسلمانوں کے سبب ملک کو بیرونی سرمایہ کاری حاصل ہورہی ہے ۔ سری لنکا کے ٹامل اور میانمار کے روہنگیائی مسلمان شہریت قانون میں شمولیت کیلئے مستحق ہیں۔ مذکورہ قانون واضح طور پر مسلم دشمنی کے سواء کچھ نہیں ۔ انسانیت ہندوستان کی پہچان ہے لیکن بی جے پی سنگھ پریوار کی آنکھ سے مسلمانوں کو دیکھ رہی ہے ۔ ہندوؤں اور دیگر طبقات کیلئے 2014 ء کی ڈیڈ لائین مقرر کی گئی۔مسلمانوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آج کی تاریخ میں آنے والوں کو بھی شہریت دی جائے لیکن شہریت مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے۔ ایک سے زائد ممالک دنیا میں ایسے ہیں جہاں طیارہ سے اترتے ہی وہاں کی شہریت دی جاتی ہے لکن ہندوستان اپنی روایات سے انحراف کرتے ہوئے سماج میں تفرقہ پیدا کر رہا ہے ۔ جہاں تک حقیقی ہندوستانیوں کا سوال ہے، سوائے دراوڑی کے باقی تمام باہر سے آئے ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ ساتھ مل کر ملک کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور خود اپنے آبا و اجداد کے بارے میں پتہ کریں کہ وہ کس ملک سے ہندوستان آئے تھے ۔ ملک کے امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو شہریت قانون نے متاثر کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پڑوسی ممالک سے تعلقات مزید بگڑچکے ہیں۔ اسی دوران مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ ایودھیا میں فلک بوس رام مندر تعمیر کیا جائے گا۔ ایک طرف انہوں نے مندر کی تعمیر کے ٹرسٹ میں بی جے پی سے وابستہ افراد کی عدم شمولیت کا اعلان کیا تو دوسری طرف فلک بوس مندر کی تعمیر کا دعویٰ ناقابل فہم ہے۔ بابری مسجد کو زمین دوز کرنے والے آج اسی مقام پر فلک بوس رام مندر کی تعمیر کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے طلاق ثلاثہ ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی اور بابری مسجد کے مسئلہ پر احتجاج کیا ہوتا تو حکومت کو شہریت قانون پیش کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ شریعت کے مسائل پر مسلمانوں کی بے حسی کے نتیجہ میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ کیا شریعت سے زیادہ شہریت کی اہمیت ہے؟ ہمیں ٹاملناڈو کے جلی کٹو اور ایس سی طبقات کے احتجاج کو بھولنا نہیں چاہئے جس کے نتیجہ میں حکومت کو جھکنا پڑا تھا۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے باوجود مسلمانوں کی بے حسی یہ دن دکھا رہی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون جیسے لاکھ قوانین منظور کئے جائیں لیکن ایک بھی مسلمان کو ملک سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔ محشر آفریدی نے کیا خوب ترجمانی کی ہے ؎
وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان چھوڑدیں ہم
بتاؤ بھوت کے ڈر سے مکان چھوڑدیں ہم