ٹرمپ کیلئے ہندوستان، پاکستان برابر کیسے ہوگئے

   

روش کمار
آج کل ہمارے ملک میں جنگ بندی کو لیکر مختلف سوالات کئے جارہے ہیں۔ ان سوالات میں سب سے اہم سوال یہ ہیکہ ہندوستان ۔ پاکستان کے درمیان اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اس کا کریڈٹ کسے دیا جانا چاہئے اور اس کیلئے کون ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی موجودہ حالات میں دو باتوں کو لیکر جواب مانگا جانا چاہئے۔ جنگ بندی کا سہرا کس کے سر باندھا جائے؟ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان کیا کچھ چل رہا ہے؟ صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے 10 مئی کو ایکس پر ہند۔ پاک کے درمیان ہوئی جنگ بندی کا اعلان کیا اور اس کا کریڈٹ لیا پھر 12 مئی کو وائیٹ ہاؤس میں بیان دیا کہ انہوں نے معاملت کروائی (جنگ بندی کروائی) پھر 13 مئی کو سعودی عرب میں کہا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان معاملت کروائی اور پھر 14 مئی کوایک اور بیان آ گیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑائی رکوانے میں انہوں نے شاندار کام کیا ہے۔ ایرفورس ون میں انہوں نے یہ انٹرویو دیا ہے۔ فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس معاملہ میں شاندار کام کیا یعنی ٹرمپ ایک بار پھر سے کریڈٹ لے رہے ہیں۔ ایسا ظاہر ہوتا ہیکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی تو ہوگئی ہے لیکن امریکہ اور ہندوستان کے درمیان کریڈٹ کی جنگ شروع ہوگئی ہے وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اس جنگ میں کریڈٹ لینے کے گولے صرف امریکہ کی طرف سے داغے جانے والے ہیں اور جواب میں ہندوستان کی طرف سے کوئی گولی نہیں چلائی جارہی ہے۔ گولہ گولی یا گولی گولہ کا معاملہ کافی الجھ سا گیا ہے۔ وزیراعظم مودی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو دھول چٹادی جبکہ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ تجارت روکنے کی دھمکی دے کر جنگ بند کردی۔ ترنگا یاترا پر نکلے بی جے پی کے حامی بھی جاننا چاہتے ہیں کہ حقیقت میں کیا ہوا۔ پاکستان کو دھول چٹائی گئی یا امریکہ نے دونوں ملکوں کو دھمکی دیکر جنگ بند کرادی۔ اگر ٹرمپ نے معاملت کروائی ہے تو پی ایم مودی نے فون کرکے ان کا شکریہ ادا کیوں نہیں کیا۔ اگر وزیراعظم مودی نے معاملت کروائی ہے تو صدر ٹرمپ نے انہیں فون کرکے شکریہ ادا کیوں نہیں کیا۔ دونوں کریڈٹ لئے جارہے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہندوستانی عوام کو بتایا جارہا ہیکہ پاکستان کے ڈی جی ایم او کی طرف سے فون آیا ادھر امریکہ کہہ رہا ہیکہ ہمارے نائب صدر اور مشیر قومی سلامتی نے دونوں ملکوں کو فون کیا۔ بہت محنت کی، تجارت بند کرنے کی دھمکی دی تب جاکر لڑائی رک گئی۔ ہندوستان کا کہنا ہیکہ وزیراعظم کی بات امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ہوئی تھی اور اس درمیان دونوں لیڈروں کے مابین جو بات چیت ہوئی اس سے میڈیا کو واقف بھی کروایا گیا ہے۔ ہندوستان اتنا ہی اعتراف کررہا ہیکہ ان کا فون آیا تھا ان کا بھی فون آیا تھا لیکن امریکہ کچھ اور کہہ رہا ہیکہ اس نے تجارت روکنے کی دھمکی دے کر لڑائی رکوائی۔ صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ Job I did a good تو وزیراعظم مودی کا اس معاملہ میں جواب کیا تھا good تھا یا Bad تھا؟ کیا انہوں نے اچھا کام نہیں کیا۔ اس پر آج کے ویڈیو میں ہمارا سوال ہیکہ کیا وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان اب ویسی دوستی نہیں رہی جب دونوں ایک دوسرے کو فرینڈ، فرینڈ کہا کرتے تھے کیا دونوں کے درمیان کچھ ایسا چل رہا ہے جس کا اندازہ تو ہورہا ہے لیکن جسے کہنے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔ کہنے کیلئے الفاظ بھی ہیں لیکن کہنے کی ہمت کسی کو نہیں ہورہی ہے۔ باڈی لینگویج دیکھ کر خارجہ پالیسی پر لکھنے والے بھی خاموش ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا ہیکہ صدر ٹرمپ نے ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو قریب آنے اور ڈنر پر لے جانے کی بات کیسے کہہ دی۔ اس بات کی باڈی لینگویج کی تشریح کہاں ہے ؟ کیا ٹرمپ کسی طرح سے وزیراعظم مودی پر طنز کررہے ہیں۔ طعنے مار رہے ہیں اگر ٹرمپ واقعی دونوں کو ڈنر پر بلا لیں گے تو کیا ہوگا۔ لوگ بالکونی میں تھائی لیکر نکل آئیں گے اور کٹر بھائی نیچے پٹخ دیں گے۔ کیا ہندوستان کی عوام کسی خیالی ڈنر کیلئے راضی ہوجائے گی؟ جہاں ایک میز پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کھانا کھارہے ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا ٹرمپ اب اپنے بیانات سے وزیراعظم مودی کو کچھ پیام دے رہے ہیں۔ دوستی میں دراڑ کی بات آپ نے سنی ہوگی یا تو دراڑ پڑ گئی ہے یا پھر اس دوستی میں لائن کھینچی جارہی ہے۔ کیا ٹرمپ دوستی میں ایک نیا خط کھینچ رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کو باڈی لینگویج کی پالیسی سمجھنے والے دانشور کیوں نہیں بتارہے ہیں؟ سوال ہیکہ امریکہ کس بھروسہ یہ بات کہہ رہا ہے مذاق میں ہی صحیح ہندوستان اور پاکستان کو قریب لاسکتا ہے اتنا کہ دونوں کے وزرائے اعظم کو ڈنر پر لے جاسکے۔ ڈنر کہاں ہوگا خان مارکٹ میں یا لاہور کے مینا بازار میں۔ سعودی عرب میں ٹرمپ نے جو بات کہی اس پر یہ سوال پیدا ہورہا ہیکہ آخر مودی اور ٹرمپ میں کیا چل رہا ہے؟ کس نے جنگ بندی کروائی۔ وزیراعظم مودی نے یا صدر ٹرمپ نے؟ ٹرمپ تو مسلسل بولے جارہے ہیں انہوں نے جنگ بندی کروائی بلکہ لفظ سیزفائر کا استعمال نہیں کرتے ڈیل کا استعمال کرتے ہیں جب رکوانا کا سہرا ٹرمپ صاحب اپنے سر باندھ رہے ہیں تو بی جے پی کے لیڈران اور کارکن کس فتح کے بعد کس کی فتح کے بعد ترنگا یاترا نکال رہے ہیں۔ سیز فائر کیا فتح ہے؟ ترنگا یاترا میں طلبہ کو کیوں بلایا جارہا ہے۔ اسکول کے بچوں کو کیا پتہ اس میں تو ہاؤزنگ سوسائٹی کے انکلوں کو بلایا جانا چاہئے جو سیزفائر کے بعد سے سند ہوگئے ہیں ترنگا یاترا میں عام لوگوں کی حصہ داری کیا آپ کو بڑھ چڑھ کر دکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی فوج کے علاوہ وزیراعظم مودی کو بھی کریڈٹ دینے کیلئے ترنگا یاترا نکال رہی ہوگی لیکن یہاں سیزفائر کا کریڈٹ تو ٹرمپ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار لئے جارہے ہیں۔ اس طرح کے پروگرامس کے بعد بھی یہ سوال دھندلا نہیں ہوپارہا ہیکہ جب ہندوستان اتنا آگے بڑھ چکا تھا پاکستان کانپ رہا تھا تو بناء شرط جنگ بندی کیوں ہوئی اور کس کے دباؤ میں ہوئی۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا امریکہ کے دباؤ میں وزیراعظم مودی پیچھے ہٹ گئے جھک گئے! ٹرمپ کیوں بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان انہوں نے ڈیل کروائی ہے۔ ہندوستان کھلے عام امریکہ کے اس دعویٰ کا انکار کیوں نہیں کرپارہا ہے؟ کیا صدر ٹرمپ امتحان لے رہے ہیں، ٹسٹ کررہے ہیں کہ وزیراعظم یا وزیرامورخارجہ ایس جئے شنکر ان کے بیان کی مخالفت میں کچھ کہہ دیں تب ہی وہ بار بار ان باتوں کو دہرائے جارہے ہیں۔ اس کا انکار کم سے کم ہندوستان کے وزیرخارجہ کو کرنا چاہئے تھا انہیں یہ جوکھم اٹھانا چاہئے تھا لیکن وزارت خارجہ کے ترجمان سے مذمت کروائی جارہی ہے کہ ٹریڈ یا تجارت کو لیکر کوئی بات نہیں ہوئی۔ پہلگام حملہ ہوا تب وزیراعظم سعودی عرب میں ہی تھے وہاں کا دورہ مختصر کرکے واپس ہوئے اسی سعودی عرب میں ٹرمپ نے دہرایا کہ ڈیل انہوں نے کروائی وہ جب یہ کہہ رہے تھے وہاں بیٹھے سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود تالیاں بجارہے تھے۔ 12 مئی اور 13 مئی کو ٹرمپ نے دو بار یہ بات کہی ہے لیکن ہندوستان کی طرف سے وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کہتے ہیں کسی بھی سطح پر تجارت کو لیکر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ تو مانا کہ اپریشن سندور کے بعد ہندوستان اور امریکہ کے درمیان بات چیت ہوئی لیکن تجارت کی چرچا نہیں ہوئی۔ تو جنگ بندی اور جنگ بندی کے پیچھے تجارت کا کیا کردار تھا اسے لیکر دو دعوے ہیں ایک دعویٰ خود صدر ٹرمپ کررہے ہیں ایک بار نہیں کئی بار کررہے ہیں لیکن ہندوستان کی طرف سے پہلا انکار وزارت خارجہ کے ترجمان کرتے ہیں کہ trade deal کا کوئی کردار نہیں تھا اس کے پہلے ذرائع کررہے تھے ذرائع کے بعد وزارت خارجہ کے ترجمان کررہے تھے۔ ملک جاننا چاہتا ہیکہ کیا وزیرخارجہ اس کی تردید یا مذمت کریں گے کم سے کم اس بیان کو لیکر ہی مودی حکومت کے وزراء ٹویٹ کردیتے کہ دیکھئے ہم نے اپنی رائے صاف کردی تجارت کو لیکر کوئی بات نہیںہوئی ہے۔ وزیرخارجہ ایس جئے شنکر اسے لیکر ٹوئیٹ کردیتے کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے ہی ترجمان کے بیان کو لیکر ٹوئیٹ، وزیراعظم مودی نے یہی دعویٰ کیا ہیکہ ٹرمپ ان کے دوست ہیں۔ ٹرمپ نے بھی انہیں کئی بار اپنا دوست کہا ہے جب سے پہلگام دہشت گردانہ حملہ ہوا تب سے آپ نے ٹرمپ کے بیانات میں کتنی بار وزیراعظم مودی کو لیکر فرینڈ جیسا لفظ سنا ہے۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کو دوست نہیں کہتے لیکن ان کا نام جس طرح سے برابری سے لئے جارہے ہیں ہندوستانی وزیراعظم کے ساتھ کیا ہمیشہ سے ایسا تھا؟ یہ سوال اس لئے بھی ضروری ہیکہ امریکہ کیلئے کب سے ہندوستان اور پاکستان برابر ہوگئے۔ ہاوڈی مودی میں ٹرمپ نے دوستی کی کتنی قسمیں کھائیں لیکن اگلے ہی دن پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی دوست کہہ دیا اس ایک بیان کو چھوڑ دیں تو اس بار ٹرمپ کے بیان میں پاکستان کو لیکر دہشت گردی کا ذکر نظر نہیں آتا جبکہ جنوری 2018ء میں صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی میعاد میں پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ امریکہ نے پچھلے 15 سال میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرس کی مدد دے کر غلطی کی ہے پاکستان نے امریکہ کو کچھ نہیں دیا بلکہ جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا۔ ٹرمپ جب پہلی بار صدر نہیں بنے تھے تب کا ایک اور بیان ہے 6 جولائی 2012ء کو انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ہم سے اسامہ بن لادن کو 6 سال تک پناہ دینے کیلئے کب معافی مانگے گا یہ کہنا درست ہے کہنے کا مطلب ہیکہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں یا کسی بھی معاملہ میں ہندوستان اور امریکہ ہی دکھائی دیتے تھے پاکستان بیچ میں نہیں آتا تھا اس بار صدر ٹرمپ پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے والا ملک نہیں کہہ رہے ہیں جنگ پہلے کہہ چکے ہیں اس لئے اس کی گہری چھان بین ہونی چاہئے کہ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کی باڈی لینگویج میں خارجہ پالیسی کی جو کامیابی دیکھی جارہی تھی دکھائی جارہی تھی کیا وہ اب بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب نومبر کے ماہ میں امریکہ میں انتخابی مہم چل رہی تھی اس وقت صدر ٹرمپ نے وزیراعظم مودی کی تعریف کی انہیں اچھا دوست بتایا لیکن ساتھ میں ہندوستان کو لیکر طنز کردیا۔ ہندوستان کو سب سے بڑا TARIFF ABUSSER کہہ دیا ایک تقرب میں کہہ دیا کہ مودی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں لیکن کچھ معاملوں میں ہندوستان چین سے بھی زیادہ TARIFF لگا رہا ہے مسکراتے ہوئے TARIFF لگاتا ہے جب تقریب حلف برداری کیلئے چین کے ژی جن پنگ کو دعوت دی جارہی تھی تو امید کی جارہی تھی کہ ٹرمپ اپنے دوست مودی کو بھی بلائیں گے لیکن انہیں نہیں بلایا گیا۔ اس طرح ٹرمپ نے ہندوستانیوں کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیاں ڈال کر ملک بھیجا۔