ٹک ٹاک بند ہوا ہے شیطان نہیں

   

محمد مصطفی علی سروری
گجرات کی صوفیہ انصاری، سلی گڑی مغربی بنگال کی ماہی خان، پربھنی مہاراشٹرا کے محسن خان، ظہیر آباد کے رحیم بھائی، نئی دہلی کی سیا ککر، ممبئی کی نور افشاں اور عرشفا خان، قارئین یہ سبھی نوجوان مرد و خواتین دراصل ٹک ٹاک نام کے سوشیل میڈیا کے اسٹارس ہیں۔ ان سب میں جو مشترک عوامل ہیں وہ یہ کہ ان میں سے ہر ایک کے چاہنے والے شائقین اور فیانس (مداحوں) کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ صوفیہ انصاری اپنا تعلق گجرات اور ممبئی سے بتلاتی ہیں اور ان کے فالورس کی تعداد 5.6 ملین ہے۔ مغربی بنگال کی بہنیں ماہی خان سسٹرس کے فالورس کی تعداد 2.4 ملین ہے۔ پربھنی مہاراشٹرا کے محسن خان کے فالورس 6 ملین تک پہنچ چکے ہیں۔ ممبئی کے نور افشاں کے فالورس 9.2 ملین سے زیادہ ہیں اور عرشفاں خان کے فالورس تو 28.3 ملین تک پہنچ چکے ہیں۔

ہاں قارئین آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ میں نے ابتدائی سطور میں نئی دہلی کی سیا ککر
(Sia Kakar)
کا نام تو لکھا لیکن اس لڑکی کے فالورس کے بارے میں نہیں بتایا دراصل اس لڑکی کے حوالے سے ایک خبر نے مجھے ٹک ٹاک کے متعلق لکھنے کی ترغیب دلائی۔ 25؍ جون 2020ء کی شام میں سوشیل میڈیا کے توسط سے یہ خبر عام ہوگئی کہ نئی دہلی کی رہنے والی 16 سال کی ٹک ٹاک اسٹار سیا ککر نے اپنے ہی گھر میں پھانسی لے کر خود کشی کرلی۔

اس لڑکی کے فالورس کی تعداد ایک ملین سے زائد تھی۔ خود کشی کرنے سے چند گھنٹے قبل ہی اس لڑکی نے اپنے گھر کی چھت پر ڈانس کی ایک ویڈیو ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی تھی۔ جس کو 30؍ جون تک تقریباً 27 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔ اس لڑکی کے ٹیالنٹ منیجر ارجن سارین کے حوالے سے میڈیا نے لکھا کہ خود کشی کرنے سے پہلے رات کو منیجر نے سیا ککر کے ساتھ فون پر بات کی۔ اس وقت اس کا موڈ خوشگوار تھا اور اس نے اپنے اگلے اسائنمنٹ کے حوالے سے گفتگو کی اور پھر اگلے دن کی صبح اس لڑکی کی خودکشی کی خبر آگئی۔ قارئین سوشیل میڈیا نے جہاں نوجوان نسل کو اپنی بات اور اپنا ہنر لاکھوں لوگوں تک پہنچانے کا ایک آسان پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ وہیں اس پلیٹ فارم نے نوجوانوں کو جو مقبولیت دی ہے اور عوام کی بڑی تعداد جس طرح سے اس پلیٹ فارم کو استعمال کر رہی ہے۔ اس کے نوجوان ذہنوں پر بہت ہی سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس بھی اتنی بڑی تعداد میں نہ تو اپنے قارئین ہی بناسکتے ہیں اور نہ ناظرین کے بارے میں سونچ سکتے ہیں۔ اور ادھر 10، 15 سال کے کم عمر لڑکے لڑکیاں لاکھوں لوگوں تک اپنی پہنچ کو یقینی بناکر مقبولیت کے نئے پیمانے بنا رہے ہیں جس کے بارے میں کچھ برسوں پہلے تو سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ ایک نوجوان کا پیغام کروڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔
انجلی چوہان اتر پردیش کے ایک دیہات کی لڑکی ہے۔ پانچ بھائی بہنوں میں گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔ اس لڑکی نے کتنی تعلیم حاصل کی اس کا تو پتہ نہیں اس نے جب ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانا شروع کیا تو گھر والوں کو بالکل بھی معلوم نہیں تھا لیکن یہ ویڈیو جب وائرل ہوگئی تو کئی نوجوان تحفے لے کر گائوں میں لڑکی کا پتہ پوچھتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچنے لگے۔ گھر والے پہلے تو پریشان ہوگئے کہ گھر بیٹھی ان کی لڑکی کے بارے میں گائوں سے باہر والوں کو کیسے پتہ لگ رہا ہے گائوں کی یہ لڑکی گھر میں ٹیلی ویژن دیکھ کر ناچ گانا سیکھ گئی تھی اور ایسا ناچنا سیکھا کہ اس کے ناچ کے ویڈیوز دیکھنے کے بعد لوگ اس کے دیوانے بننے لگے اور ایک ٹیلی ویژن چیانل نے اس گائوں کی لڑکی کا انٹرویو بھی کرڈالا۔ جس کے مطابق انجلی چوہان فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے۔ بس اسی کے لیے وہ ٹک ٹاک پر اپنے ویڈیوز بناکر پوسٹ کر رہی ہے۔

گائوں کی یہ لڑکی اگرچہ ٹک ٹاک کے علاوہ دوسرے کسی پلیٹ فارم (سوشیل میڈیا) کے بارے میں بالکل بھی نہیں جانتی ہے لیکن انجلی کے ناچ گانے کو پسند کرنے والے اس کے فالورز نے اس کی ویڈیوز کو
Youtube
سے لے کر سوشیل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم تک پہنچادیا ہے۔انجلی چوہان سے ملنے کے لیے اس کے گائوں جانے والے نوجوانوں کی قطار کچھ اتنی لمبی ہونے لگی کہ یہ سب کو کھٹکنے لگا ہے۔ باہر سے آنے والے نوجون اپنے آپ کو انجلی کا فیان اور فالور بتلاتے ہوئے اس سے ملنے اس کے ساتھ ویڈیو بنانے کی فرمائش کرنے لگے ہیں۔یہاں تک بات تو پہنچی ہے لیکن جو لڑکے انجلی کے گائوں اس کے گھر تک پہنچنے کے بعد کسی وجہ سے انجلی سے نہیں مل پاتے وہ انجلی کے خلاف ویڈیو مسیج بناکر ٹک ٹاک پر ڈالنے لگے ہیں۔
قارئین ٹک ٹاک پر ڈالے جانے والے ویڈیوز کی اکثریت ناچنے گانے یا کسی اور کے ناچ گانے کی نقل پر ہی مبنی ہے۔ ان ٹک ٹاکرس کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی ایک علاقائی کمپنیاں اپنے پراڈکٹس کی پبلسٹی اور اڈورٹائزمنٹ کے لیے ان کو پیسے دے کر کام کروا رہے ہیں۔نوجوانوں کی دیوانگی کا یہ عالم ہوگیا کہ دن میں 10 تا 15 ویڈیو بناکر اپلوڈ کی جانے لگی۔
اور اب میں مسلم کمیونٹی کے لیے سب سے بڑی تشویش کی بات پر توجہ مبذول کروانا چاہتاہوں۔ مسلم قوم کی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے ٹک ٹاک کے ویڈیوز بنانے کے لیے دن رات اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں مسلم لڑکیوں کی خاص کر ایسی ویڈیوز مارکٹ میں اور خاص کر سوشیل میڈیا پر وائرل ہوتی جارہی ہیں جو بالکلیہ گھریلو اور نجی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹک ٹاک پر لڑکی کے ساتھ دوستی کر کے نوجوانوں کی جانب سے ان کو بلیک میل کرنے، ان کا استحصال کرنے کے واقعات میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔نشا گروگین ایک ٹک ٹاک اسٹار ہیں۔ اس 22 سالہ لڑکی کے ٹک ٹاک پر فالورس کی تعداد 28 ملین کے قریب ہے۔ جی ہاں قارئین ایک ملین مساوی ہے دس لاکھ کہ اور 28 ملین سے مراد 2 کروڑ 80لاکھ شائقین اس لڑکی کی پروفائل کو فالو کرتے ہیں۔ اس کے ہر ویڈیو کو پسند کرتے ہیں۔ نشا گرو گین ممبئی میں رہتی ہے۔ اس ٹک ٹاکر نے گذشتہ دنوں ممبئی پولیس کی آئی ٹی سیل میں ایک شکایت درج کروائی ہے۔
نشا نے پولیس سے درخواست کی کہ وہ اس کا ایک قابل اعتراض ویڈیو انٹر نیٹ پر وائرل ہونے سے روکیں جس میں اس کو قابل اعتراض حالت میں بتلایا گیا ہے۔ لیکن قارئین آپ ذرا اندازہ لگایئے کہ ایک لڑکی جس کے چاہنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو اور اس کا ایک غلط ویڈیو منظر عام پر آجائے تو کیا ہوسکتا ہے۔بہت سارے لوگوں نے نشا گروگین سے اپیل کی کہ وہ ایسا کوئی غلط قدم نہ اٹھائے جس سے اس کی جان چلی جائے۔ سوشیل میڈیا کے سبھی پلیٹ فارمس دراصل دو دھاری تلوار سے بھی خطرناک ہیں اور بغیر سونچے سمجھے اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناسور بن سکتا ہے۔کیا آپ نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آپ کے بچے کس طرح کے ویڈیو بنا رہے ہیں؟

ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے کہ آخر ہماری نوجوان نسل تفریح کی تلاش میں ہی کیوں سرگرداں ہے۔ کیا روزگار کے سارے مواقع ناچنے گانے اور سیر و تفریح کے میدان میں ہی ہیں۔ یہ تو ٹک ٹاک سے جڑے ہوئے سماجی زاویے کی بات تھی لیکن جب 29؍ جون کو حکومت ہند نے 59 موبائل فونس اپلیکیشنس پر پابندی عائد کردی تو ملک کے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ٹک ٹاک کو بھی بند کردیئے جانے پر بڑا غمگین ہوگیا تھا۔ مسلمان لڑکے بھی بڑے مغموم ہوگئے تھے اور خاص کر اگر لڑکیوں کی بات کروں تو مہاراشٹرا کی ایک برقعہ پوش مسلم لڑکی ٹک ٹاک پر اپنے آخری پیغام میں کیا کہہ رہی ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔

’’السلام علیکم اور کیسے ہیں آپ لوگ۔ الحمد للہ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ لوگوں سے ایک بات شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ میں آج دکھی ہوں کیونکہ ٹک ٹاک بند ہو رہا ہے۔ میں نے ٹک ٹاک پر فالورس بڑھانے کے لیے کافی محنت کی تھی۔ مجھے ویڈیوز بنانا اچھا لگتا ہے۔ اب ٹک ٹاک بند ہوجائے تو میں یوٹیوب پر ویڈیوز نہیں ڈالوں گی۔ بلٹ رانی کے نام سے مشہور اس برقعہ پوش لڑکی نے اپنے آخری ویڈیو میں مزید بتلایا کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ ٹک ٹاک بند ہو رہا ہے۔ میری درخواست ہے کہ میرے چاہنے والے مجھے بھول نہ جائیں اور میں تو چاہتی ہوں کہ ٹک ٹاک بند نہ ہو۔ اللہ حافظ۔
قارئین مسلم معاشرے میں تربیت کے حوالے سے پہلے ہی بہت سارے چیالنجس درپیش ہیں۔ ایسے میں اپنے بچے بچیوں کو سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ کے مثبت ، موثر اور مفید استعمال کو یقینی بنانے کی تربیت بھی دی جانی ضروری ہے۔ آج ہندوستان کے چین سے تعلقات خراب ہونے پر حکومت نے از خود ٹک ٹاک کو بند کردیا لیکن اپنے بچوں کی تربیت کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے والدین اور سرپرستوں کو ہی فکر کرنا ہوگا۔ کیا مسلم امہ اس چیالنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ سونچئے گا۔ ورنہ کل تو کوئی بھی سڑک چھاپ بندہ ہماری لڑکیوں کی ویڈیواپنے فون میں رکھ کر مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری اولاد کو ٹیکنالوجی کے غلط استعمال اور ہر طرح کے شر سے محفوظ رکھے اور ائے مالک دوجہاں شیطان کے شر سے، کرونا کی وباء سے محفوظ رکھ کر ہمیں صراطِ مستقیم پر چلائے۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com