پارلیمنٹ کے انتخابات فرقہ پرستی اور سیکولرازم میںمقابلہ آرائی

   

غضنفر علی خان
یوں تو ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لئے انتخابات ہوتے ہیں لیکن نظریات کی جنگ اس مرتبہ بے حد شدید ہوگئی ہے۔ سیکولرازم ہندوستان میں ایک دم توڑتی ہوئی شمع بن گئی ہے جبکہ فرقہ پرستی ایک سیاسی نظر یہ کی حیثیت سے مضبوط ہوتی جارہی ہے اس سے پہلے کبھی بھی ان دونوں نظریات کے درمیان اتنا شدید مقابلہ نہیں ہوا تھا ، اس لحاظ سے 2019 ء کے یہ چنا ؤ بے حد اہم ہوگئے ہیں ، کانگریس پارٹی جو کبھی سیکولرازم کی نقیب تھی ، آج سمٹی ہوئی ایک جماعت بن کر رہ گئی ہے ، اس میں نہ تو کوئی بھاری بھرکم لیڈر ہے اور نہ اس کی سیاسی فکر سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ کہنا تو صحیح ہے کہ کانگریس کے علاوہ بھی سیکولرازم کا پرچار کرنے والی اور جماعتیں بھی ہیں لیکن یہ اپنے اپنے دائرے میں جکڑی ہوئی ہے۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جس کی قیادت مایاوتی کرتی ہے، اپنا ایک خاص مقام ضرور رکھتی ہے ۔ بہار میں لالو پرساد یادو ایک سیکولر لیڈر ہے لیکن آج کل قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے علاوہ دونوں کمیونسٹ پارٹیاں بھی سیکولر ہیں ، ان کا سانحہ یہ ہے کہ مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کبھی اپنے دائرے اثر کو وسعت دینے کی کوشش کی اور نہ اپنے اپنے علاقوں سے باہر نکل کر عوام میں ائی کوئی کوشش کی ، ایک زمانہ تھا جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے 40 تا 50 ارکان پارلیمنٹ ہوا کرتے تھے اور ان میں نہایت لائق پڑھے لکھے نمائندے بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ سیکولر طاقتیں بھی اب ماند پڑگئی ہے ۔ لے دے کر سیکولرازم کا پرچم کانگریس ہی کے ہاتھ میں رہا لیکن یہ پارٹی جس شکست و ریخت کے احساس سے کبھی باہر نہ نکل سکی ، سیکولرازم کی تلوار ماند پڑتی گئی جبکہ فرقہ پرستی شمشیر برہنہ لے کر کبھی رتھ یاترا نکالتی رہی تو کبھی ہندو مسلم فسادات سے سیاسی فائدہ اٹھاتی رہی ۔ 1980 ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے صرف دو رکن پارلیمنٹ میں ہوا کرتے تھے لیکن اگلے پندرہ برسوں میں ان کی تعداد 180 ہوگئی ، اب تو اس کو غالب اکثریت حاصل ہے ۔ کانگریس پارٹی واحد بڑی جماعت ہے جو ملک گیر سطح پر کام کرسکتی ہے ۔ کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی پارٹیوں نے ایک فرنٹ ’’مہا گٹھ بندھن‘‘ بنانے کی بہت کوشش کی لیکن اب جبکہ انتخابات میں بمشکل تمام سات یا آٹھ ہفتہ رہ گئے ہیں یہ خبریں مل رہی ہے کہ وزارت عظمیٰ کے مسئلہ پر غیر بی جے پی سیکولر پارٹیاں منتشر ہوتی جارہی ہے جبکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار دن بہ دن مضبوط و مستحکم ہوتا جارہا ہے ۔

مہا گٹھ بندھن میں دوسرے سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر گزشتہ دو مہینوں سے بی جے پی مخالف محاذ کھول دیا ہے، اس میں ایک غلطی ان پارٹیوں نے یہ کی کہ بی جے پی کی حکومت کے نقائص اور ناکامیوں کو موثر انداز میں اجاگر کرنے کے بجائے صرف نریندر مودی کو اپنی تنقید اور حملوں کا شکار بنایا ۔ یہ وار اُن کیلئے خطرناک ثابت ہوا، مسلسل مخالف مودی باتوں میں مودی کے لئے سماج کے خاص طبقات میں ہمدردی کی لہر پیدا کردی ۔ آج سے تین چار ہفتے قبل تک مودی کی مقبولیت میں مسلسل کمی ہوتی گئی لیکن آج صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، عوام مودی کی مخالفت کی باتیں سن سن کر اکتسا گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ان دیکھے واقعات نے بھی وزیراعظم کو مقبول بنادیا ہے ۔ کشمیر کے پلوامہ علاقہ میں پاکستان کے دہشت پسندوں کا حملہ اور اس میں 40 سپاہیوں کی ہلاکتوں نے ماحول بدل کر رکھ دیا ، جواب میں ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کی سرحد میں گھس کر کامیاب حملہ کیا ۔ بحیثیت ایک قوم یہ حملہ ہندوستانی عوام کیلئے حد درجہ متاثر کن رہا ، ان حالات میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں مودی کی عوامی مقبولیت بڑھ گئی ہے اور عوام ان کی کارروائیوں سے خوش ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ایک طرف اپوزیشن کا اتحاد بے اثر ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف بی جے پی اور مودی کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ کانگریس ایک دوراہے پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے، جہاں سے وہ اپنے لئے صحیح راستہ طئے کرنے میں الجھن کی شکار ہوگئی ہے ۔ پارلیمنٹ کے انتخابات اپوزیشن کی کمزوریوں اور سنگھ پریوار کی مضبوطی کے درمیان راست مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، اسی لئے راقم نے ابتداء میں یہ کہا ہے کہ یہ چناؤ ان دونوں متضاد طاقتوں کے درمیان ایسا مقابلہ ہے جو ہندوستان کی تقدیر کو بدل سکتا ہے ۔ یہ تقدیر کیسی ہوگئی۔ اس میں آیا اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کمزور طبقات اور ملک کے غریب عوام محفوظ رہیں گے یا نہیں یہ بات آج ہم سب کے ذہن میں گونج رہی ہے کہ انتخابات کے اعلان کے بعد ضابطہ اخلاق بھی لاگو ہوگیا ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لئے ضابطہ اخلاق ہمیشہ نافذ رہنا چاہئے ، یہ ملک کے عوام ہیں جنہوں نے ہندوستان میں جمہوریت اور سیکولرازم کو ہمیشہ قائم و دائم رکھا ۔ سیاستدانوں نے تو جمہوریت کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ البتہ اس ملک کے ان مزدوروں نے جو کارخانوں یا پھر کھیتوں میں محنت و مزدوری کرنے والوں نے ہمیشہ جمہوریت کی آبرو برقرار رکھی ، خاص طور پر ملک کے غریب و محنت کش طبقہ نے جمہوریت اور سیکولرازم کی زلفوں کو ہمیشہ سنوارا ۔ یہ بات اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں دولتمند طبقہ نے کبھی بھی ان دونوں چیزوں کی حفاظت کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ یہ جمہوریت جس میں اپریل میں ہونے والے انتخابات میں 90 کروڑ رائے دہندے حصہ لیں گے ۔ ہمارے لئے فخر کی بات ہے ، ان ہی معنوں میں ہماری جمہوریت دنیا میں عظیم ترین کہلاتی ہے۔ سیاستدانوں نے تو (ان میں سے بعض اچھے بھی ہیں جو ملک کی عزت و آبرو کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں کرتے) اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کے ان طبقات نے جو ستر (70) برس سے جمہوریت کا تحفظ کر رہے ہیں ، اب اس انتہائی نامک اور سخت آزمائش والے چناؤ میں کیا رول ادا کریں گے ۔ عوام پر اب بھی یہ اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ ان کے ذہن صاف ہیں اور ان کی رگوں میں سیکولرازم خون بن کر دوڑ رہا ہے اور وہ ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔ سیاستدانوں کو جو فرقہ پرستی کا زہر گھول رہے ہیں ، سبق سکھائیں گے ۔ بشرطیکہ سیکولر طاقتیں عوام کو یہ تیقن دیں کہ ہندوستان جمہوری اور سیکولر ملک تھا اور ہمیشہ رہے گا۔