نئی دہلی۔ گلالائی اسماعیل جوپاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں میں مقبول ہیں‘ اس کے علاوہ وہ جبری شادیوں‘ اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات اور ٹوٹی خوابوں کے متعلق بات کرتی ہیں۔
دنیا بھر میں ان کا زمینی کام چل رہا ہے‘ کئی ایوارڈ جیتے ہیں اور بااثر خواتین جیسے مشل اوباما اور رانی ایلزبتھ دوم کے ساتھ شہہ نشین پر بیٹھنے کا بھی انہیں موقع ملا ہے۔ مگر ان کے اپنے ملک میں محترمہ اسماعیل ملک کے دشمن بن گئی ہیں‘ باغاوت کے لئے بھڑکانے کا انہیں ملزم بنادیاگیاہے۔
اور اب وہ مفرور ہیں۔ خاص طور پر پچھلے دو ماہ سے انہیں کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی سروسیس جس کے متعلق کہاجاتاہے کہ نہایت بے رحم اور جابر ہے‘ وہ بھی انہیں تلاش کرنے قاصر ہے۔
ان کے گھر پر متعدد مرتبہ دھاوے کئے گئے اور عہدیداروں کی تعیناتی بھی کی گئی اور محترمہ اسماعیل کے فیملی کے مطابق جانکاری نکالنے کے لئے فیملی فرینڈس کو محروس رکھا گیا اور اذیتیں باہم پہنچائی گئیں۔
ان کی ایک ساتھی نے کہاکہ33سالہ محترمہ اسماعیل اپنے بقاء کے لئے انتھک جدوجہد کررہی ہے‘ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہورہی ہے‘
اپنے حمل ونقل کاخیال رکھتے ہوئے‘ گھر سے باہر نکلنے کے دوران اپنے چہرہ اسکارف سے چھپاے لیتی ہیں اور پاکستان کے بھر کے شہروں میں جو ان کوچھپانے کے لئے ہر طرح کا خطرہ مول لینے والی ساتھی جہدکاروں کے انڈر گروانڈ نٹ ورکر پر ان کا انحصار ہے۔
گھر والوں کاکہنا ہے کہ مئی میں روپوش ہونے کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ چھوٹی بہن صبا نے کہاکہ ”ہمارے سارے فونوں کی نگرانی کی جارہی ہے“۔
افواہیں گشت کررہی ہیں کہ وہ کہیں دیکھائی دی ہیں یا پھر گرفتار کرلی گئی ہیں۔
مگر سکیورٹی اہلکار کہتے ہیں وہ ان کی تحویل میں نہیں ہے اور بے صبری کے ساتھ تلاش کی جارہی ہے۔
حالانکہ تبدیل شدہ پاکستان کے دعوؤں کے بعد بھی تلاش کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک طرف پاکستان کے وزیراعظم عمران خان وائٹ ہاوز میں امریکی صدر کے ساتھ امن کے لئے بات چیت کررہے ہیں
اور ہندوستان کے ساتھ رشتوں کو استوار کرنے پر تبادلہ خیال کیاجارہا ہے دو سری جانب ملک میں ایک جہدکار کا عرصہ حیات تنگ کرنے کاکام کیاجارہا ہے۔
مگر محترمہ اسماعیل کا معاملہ دیکھاتا ہے کہ کئی پاکستانی اب بھی اپنے سکیورٹی سروسیس کے ہاتھوں گہرے خوف میں زندگی گذار رہے ہیں