پاکستا ن کے وزیراعظم عمران خان نے ایک متنازعہ بیان دیا ہے

,

   

مذکورہ ریمارکس جو خان او رپاکستان آرمی چیف جنرل قمر باجوا نے ایسے وقت میں دیا ہے جب پاکستان کی تقریب منائی جارہی تھی جو جموں کشمیر کے خصوصی موقف کے متعلق حکومت ہند کے فیصلے کے پیش نظر کشمیری عوام سے اظہار یگانگت میں دیاگیاہے

اسلام آباد۔پاکستان کی شہری او رملٹری قیادت نے چہارشنبہ کے روزکشمیری معاملے پر اپنی حمایت کا عہد لیا‘

اور ساتھ میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ جب تک علاقے میں اگرہندوستان شروع کی گئی کاروائی کو ختم نہیں کرتا تب تک وہ جدوجہد کریں گے۔

مذکورہ ریمارکس جو خان او رپاکستان آرمی چیف جنرل قمر باجوا نے ایسے وقت میں دیا ہے جب پاکستان کی تقریب منائی جارہی تھی جو جموں کشمیر کے خصوصی موقف کے متعلق حکومت ہند کے فیصلے کے پیش نظر کشمیری عوام سے اظہار یگانگت میں دیاگیاہے۔

خان نے کہاکہ پاکستانی فوج کے پاس اس کی بات کی جانکاری ہے کہ حکومت ہند پاکستان کے مقبوضہ کشمیر میں ”کاروائی کرنے“ کا منصوبہ بنائی ہے مگر انہوں نے انتباہ دیا کہ ان کا ملک آخت تک مضبوطی سے جوابی لڑائی لڑے گ

ا۔انہوں نے اس وقت یہ بیان دیا جب وہ پی او کے کے قانون ساز اسمبلی مظفر آباد میں خصوصی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔خان نے کہاکہ ”پاکستان فوج پوری طرح ہوشیار ہے‘ وہ (ہندوستان) کا منصوبہ ہے کہ آزاد کشمیر میں کاروائی انجام دے۔

ٹھیک اسی طرح جیسے پلواماں حملے کے بعد بالاکوٹ میں جس طرح سے انہوں نے کاروائی کی تھی’مذکورہ جانکاری یہ ہے کہ وہ اس سے خطرناک منصوبہ بنائے ہیں تاکہ دنیا کی نظر کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے ہٹائی جاسکے“اور فبروری کے مہینے میں پلواماں خود کش حملے کے بعد ہندوستان کی جانب سے بالاکوٹ میں کئے گئے فضائیہ حملے کا حوالہ دیا۔

انہو ں نے کہاکہ ”میں ہندوستان کے وزیراعظم نریند رمودی کو یہ پیغام دینا چاہتاہوں‘ تم کاروائی کرو اس کا ہم سخت جواب دیں گے۔

مذکورہ پاکستان کی فوج تیار ہے‘ او ر سارا ملک بھی تیار ہے“۔

آرمی سربراہ باجوا نے کہاکہ ان کی فوج ”کشمیر کاز کے لئے قومی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے پوری طرے سے“ ان کی فوج تیار ہے۔پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ’’پرائم منسٹر“ راجہ فاروق حیدر نے کہاکہ کشمیر میں ہندوستان کی کاروائی ایک نئی تحریک کو شروع کرنے کا سبب بنے گی۔

انہوں نے کہاکہ ”ہندوستان چاہتا ہے کہ وہ ارٹیکل35اے کو ہٹاکر کشمیر میں جغرافیائی تبدیلی لاسکے“۔اسلام آباد کے اس تبصرے پر نئی دہلی کی جانب سے کوئی سرکاری بیان اب تک جاری نہیں کیاگیاہے۔