پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک

   

(ہر عیب سے) پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ، با برکت بنا دیا ہے ہم نے جس کے گرد و نواح کو تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں … (سورۃ بنی اسرائیل ۔۱) 
گزشتہ سے پیوستہ … حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) اہل مکہ سے مایوس ہوکر طائف تشریف لے گئے۔ شاید وہاں کے لوگ اس دعوت توحید کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔ لیکن وہاں جو ظالمانہ اور بہیمانہ برتاؤ کیا گیا۔ اس نے سابقہ زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ ان حالات میں جب بظاہر ہر طرف مایوسی کا اندھیرا پھیل چکا تھا اور ظاہری سہارے ٹوٹ چکے تھے۔ رحمت الٰہی نے اپنی عظمت و کبریائی کی آیات بینات کا مشاہدہ کرانے کے لیے اپنے محبوب کو عالم بالا کی سیاحت کے لیے بلایا ، تاکہ حضور (ﷺ) کو اپنے رب کریم کی تائید و نصرت پر حق الیقین ہوجائے اور حالات کی ظاہری ناسازگاری خاطر عاطر کو کسی طرح پریشان نہ کر سکے ۔ غور کیا جائے تو سفر اسریٰ کے لیے اس سے موزوں ترین اور کوئی وقت نہیں ہوسکتا تھا۔اس مقدس سفر کا تفصیلی تذکرہ تو کتب حدیث و سیرت میں ملے گا۔ یہاں اجمالی طور پر ان اُمور کا ذکر کر دیا گیا ہے جو مختلف احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں۔حضور (ﷺ) ایک رات خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں آرام فرما رہے تھے کہ جبرئیل امین حاضر خدمت ہوئے اور خواب سے بیدار کیا اور ارادہ خداوندی سے آگاہی بخشی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُٹھے، چاہ زمزم کے قریب لائے گئے۔ سینہ مبارک کو چاک کیا گیا۔ قلب اطہر میں ایمان و حکمت سے بھرا ہوا طشت انڈیل دیا گیا۔ اور پھر سینہ مبارک درست کر دیا گیا۔