پھر نیا سال نئی صبح نئی امیدیں

,

   

نیا سال … تبدیلی اور بیداری کی امید
پرگیہ سنگھ کی زہر افشانی … کرناٹک اسمبلی چناؤ کی تیاری

رشیدالدین
انسان عام طورپر خوش فہم ثابت ہوا ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق اور مشکلات کو فراموش کرتے ہوئے انسان ہمیشہ بہتر کی امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ اسے قدرت کا تحفہ کہیئے کہ انسان کسی بھی غم کو طویل عرصہ تک باقی نہیں رکھتا۔ سال 2022 ء کے تجربات کو بھلاکر دنیا 2023 ء کا پرجوش استقبال کر رہی ہے۔ گزشتہ سال یوں تو دنیا کیلئے کم تباہی اور بربادی کا سبب بنا کیونکہ مہلک کورونا وباء 2022 ء میں اپنا اثر نہیں دکھاسکی۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے 2022 ء میں صورتحال تبدیل نہیں ہوئی اور مرکزی حکومت کی 2014 ء سے شروع کردہ پالیسیاں برقرار رہیں۔ ملک میں نفرت کی سیاست عروج پر رہی جبکہ لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے بہتر مستقبل کیلئے 2024 ء میں عوام کو ہی کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا ، حکمرانوں سے اچھائی کی امید کرنا فضول ہے۔ 2022 ء میں بی جے پی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا اور گجرات میں کامیابی نے بی جے پی پر نریندر مودی اور امیت شاہ کی گرفت کو مضبوط کردیا ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے میں حکومت ناکام ہوگئی اور ہر سال دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کاغذی ثابت ہوا۔ سنگھ پریوار نے ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں دل آزاری اور نفرت کی مہم کو جاری رکھا ہے ۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سرگرمیاں 2022 ء میں عروج پر رہیں اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مقامی سطح پر یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ 2022 ء میں امیت شاہ نے 2024 ء تک ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا ۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری تیز ہوچکی ہے۔ گزشتہ سال کئی بی جے پی حکومتوں نے تبدیلی مذہب پر پابندی کے قانون کو منظوری دی۔ جہاں تک اپوزیشن کا سوال ہے، 2022 ء کانگریس کیلئے مکمل نہ سہی جزوی طور پر اچھی خبروں کا سال ثابت ہوا ہے۔ راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا اور کانگریس کی قیادت گاندھی خاندان سے نکل کر پارٹی کے ایک مضبوط سپاہی ملکارجن کھرگے کے حصہ میں آئی۔ بھارت جوڑو یاترا سے ملک میں کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس کا ثبوت ہماچل پردیش میں کانگریس کی کامیابی ہے۔ 2022 ء میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے قومی سطح پر سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے نام کو بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کردیا ہے ۔ ملک کی اہم قومی اور علاقائی سیکولر جماعتوں کا کوئی خاص مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا جسے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف جدوجہد یا مزاحمت کہا جائے ۔ رہی بات مسلمانوں کی تو ان کے لئے آزادی کے بعد سے 75 سال یکساں ثابت ہوئے ہیں۔ مسلمانوں سے سیاسی پارٹیوں کی ہمدردیاں حلق کے نیچے نہیں اترتیں اور جہاں تک مسلم مذہبی اور سیاسی قیادتوں کا تعلق ہے، ہمیشہ کی طرح وہ مصلحتوں کا شکار رہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستانی مسلمان کسی قیادت کے بغیر ہی اپنا سفر زندگی طئے کر رہے ہیں۔ 2022 ء میں مودی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف کئی فیصلے کئے جن میں پری میٹرک اسکالرشپ اور مولانا آزاد فیلو شپ کی برخواستگی شامل ہے لیکن قیادت خوف کے تحت خاموش ہے۔ 2022 ء میں نریندر مودی نے اپنی وزارت میں موجود واحد مسلم وزیر مختار عباس نقوی کو علحدہ کردیا اور انہیں راجیہ سبھا رکنیت کی توسیع نہیں دی گئی ۔ مرکزی حکومت شائد تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسلم نمائندگی کے بغیر چل رہی ہے اور اس پر بی جے پی قیادت کو کوئی شرمندگی اور احساس تک نہیں۔ مسلم سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور اداروں سے عام مسلمانوں نے توقعات وابستہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جو ادارہ اور جماعت کسی طرح سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ، وہ صرف ایک فرد کے باعث ہیں۔ ہر سال کی طرح ہم بھی امید کرتے ہیں کہ 2023 ء نہ صرف سارے ملک بلکہ اقلیتوں کے لئے بھی نئی صبح امید کا پیام لائے گا۔ مسلمانوں کو دستور میں دیئے گئے حقوق کا تحفظ ہوگا اور ان کی مذہبی اور ملی شناخت برقرار رہے گی۔ تشخص کی برقراری مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے نام کے ساتھ ہی 2008 ء مالیگاؤں بم دھماکہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں نے نام نہاد سادھوی کو دہشت گرد ثابت کیا تھا لیکن بی جے پی نے انہیں پارلیمنٹ کا رکن بنا دیا ۔ 2014 ء کے بعد نریندر مودی حکومت کے طرز حکمرانی سے مرکز پر آر ایس ایس کا کنٹرول اور سنگھ پریوار تنظیموں کو حکومت کی سرپرستی واضح ہوچکی ہے۔ ستمبر 2008 ء میں مالیگاؤں مسجد کے قریب بم دھماکہ میں 10 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ دھماکہ کیلئے سادھوی پرگیہ کی بائیک کے استعمال کا ثبوت ملنے پر NIA نے مقدمہ درج کیا تھا لیکن نریندر مودی برسر اقتدار آنے کے بعد اسی NIA نے سادھوی پر سے سنگین الزامات کو واپس لے لیا ۔ عدالت میں انہیں بے قصور ثابت
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بم دھماکہ میں ملوث ہونے کے الزامات کے باوجود بی جے پی نے مدھیہ پردیش کے بھوپال سے لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر کامیاب بنایا۔ عدالت میں مقدمہ ابھی باقی ہے، باوجود اس کے پرگیہ سنگھ کو پارلیمنٹ پہنچانے سے بی جے پی کے عزائم کا اظہار ہوگا ہے ۔ بی جے پی کو دراصل آگ اگلنے والوں کی ضرورت ہے ۔ اوما بھارتی چونکہ آؤٹ ڈیٹیڈ ہوگئیں ، لہذا ان کا متبادل تیار کرلیا گیا ۔ انسانی فطرت کا بدلنا آسان نہیں ہوتا اور جس مقصد کے تحت پارلیمنٹ میں لایا گیا ، اس کی تکمیل کرنا سادھوی پرگیہ کا فرض عین ہے۔ سنگھ پریوار نے جو تربیت کی ، اس کا وقفہ وقفہ سے اظہار کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ بنانے کے احسان کو چکا رہی ہیں۔ بم دھماکہ کے ذریعہ بے قصور اور معصوموں کا خون بہانے والی ملزم نے کرناٹک میں اپنی زبان کو تیز دھاری چاقو کی طرح استعمال کرتے ہوئے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ۔ سادھوی کا کام عوام کو آپس میں جوڑنا ہے ناکہ توڑنا۔ حقیقی سادھوی اور سادھوی کا تشدد سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہتا اور انسانیت کی خدمت اور نیک کاموں کی تلقین کرتے ہیں۔ بم دھماکہ کے ملزم کو جب قانون ساز ادارہ کا رکن بنادیا جائے تو وہ بے خوف ہوجاتا ہے ۔ جن کی جگہ جیل میں ہونی چاہئے ، وہ پارلیمنٹ میں داخل ہوچکے ہیں۔ سادھوی پرگیہ نے ہندوؤں کو گھروں میں تیز دھاری چاقو رکھنے کا مشورہ دیا تاکہ وقت ضرورت دشمن پر استعمال کیا جاسکے۔ اشتعال انگیز اور نفرت بھرے بیان کیلئے کرناٹک کا انتخاب محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور سادھوی پرگیہ کی زہر افشانی دراصل بی جے پی انتخابی مہم کا کاونٹ ڈاؤن ہے۔ بی جے پی نے کرناٹک میں انتتخابی مہم کا ایجنڈہ طئے کردیا ہے ۔ گجرات کی طرح کرناٹک بھی ہندوتوا ایجنڈہ کے ذریعہ اقتدار کے حصول کا نشانہ ہے کیونکہ بی جے پی کے پاس عوامی خدمات کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ کرناٹک میں لو جہاد ، حلال ، حجاب ، اذان، عیدگاہوں کی اراضی پر پوجا ، تبدیلیٔ مذہب جیسے نفرت انگیز ایجنڈہ کے بعد اب نفرت کے سوداگروں کو دعوت دی جارہی ہے تاکہ ماحول میں کشیدگی برقرار رہے۔ پرگیہ سنگھ نے نفرت پھیلانے کا کام کیا لیکن کرناٹک حکومت اور پولیس تماشائی بنی رہی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہیٹ اسپیچ اور مذاہب کے درمیان نفرت پھیلانے پر از خود مقدمہ درج کیا جاتا۔ مقدمہ اور گرفتاری کے بجائے بی جے پی سادھوی کے بیان کی تائید کر رہی ہے۔ ہر ذی شعور شخص سادھوی کے بیان کی مذمت کر رہا ہے لیکن بی جے پی کا کہنا ہے کہ سادھوی نے حفاظت خود اختیاری کی بات کہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوؤں کو آخر کس سے خطرہ ہے ؟ اگر یہی بیان کوئی مسلم لیڈر کی زبان سے نکلتا تو ملک کے ہر گوشہ میں مقدمات درج کر کے جیل بھیج دیا جاتا۔ تیز دھاری چاقو رکھنا اگر حفاظت خود اختیاری ہے تو پھر مسلم تنظیموں کو لاٹھی چلانے کی ٹریننگ کی اجازت کیوں نہیں ؟ لاٹھی سکھانے پر ملک سے غداری کے مقدمات درج کئے گئے ۔ لاٹھی چلانا اور کھلے عام لاٹھیوں کے ذریعہ پریڈ کرنا صرف آر ایس ایس کا حق ہے جبکہ بجرنگ دل کو ترشول کے مظاہرہ کی اجازت ہے۔ قانون ہر شہری کیلئے یکساں ہونا چاہئے بھلے ہی اس کا تعلق کسی مذہب ، علاقہ اور ذات سے کیوں نہ ہو۔ یہاں تو قانون کے استعمال میں بھی جانبداری ہے۔ مسلمان کچھ کہیں یا کریں تو گنہگار اور دیش دروہی لیکن وہی کام سنگھ پریوار کے پروردہ کریں تو قومی ہیرو۔ پرگیہ ٹھاکر نے لو جہاد کا مسلمانوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان محبت نہیں لو جہاد کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ سادھوی کا شادی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور محبت تو ان کیلئے شجر ممنوعہ ہے۔ جو نہیں جانتے محبت کیا ہے، وہ لو جہاد سے کیا واقف ہوں گے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے قبل سادھوی پرگیہ سنگھ بی جے پی میں موجود مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کے بارے میں کیا کہیں گی، جنہوں نے مرلی منوہر جوشی اور اشوک سنگھل کے گھرانے میں شادی کی ہے۔ ان دونوں نے محبت کی یا پھر لو جہاد اس کا جواب پرگیہ سنگھ کو دینا ہوگا۔لو جہاد کے تحت ان دونوں پر مقدمہ چلاکر دکھائیں۔ بی جے پی نے تو ان دونوں کو مسلم چہرہ کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ دونوں بی جے پی اور وی ایچ پی کے داماد ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار ان دونوں کو ہندو تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن جب دنیا سے جائیں گے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ قبرستان جائیں گے نہ کہ شمشان۔ سنگھ پریوار کے دامادوں کا آج برا حال ہے ۔ ایک مرکزی وزارت سے تو دوسرے بہار کی وزارت سے محروم ہوچکے ہیں۔ واجپائی اور اڈوانی کے دور تک ان کی بڑی اہمیت تھی لیکن اب مودی کو ایک مسلم وزیر بھی برداشت نہیں۔ سال نو کا استقبال ہم اس شعر سے کریں گے ؎
پھر نیا سال نئی صبح نئی امیدیں
اے خدا خیر کی خبروں کے اجالے رکھنا