پہلو خان کیس ‘ تحقیقاتی عملہ کی ناکامی

   

ہر قدم ناکامیاں ہیں کیا کریں
الٹی حکمت عملیاں ہیں کیا کریں
پہلو خان کیس ‘ تحقیقاتی عملہ کی ناکامی
راجستھان کے الور میں پیش آئے پہلو خا ن کے قتل کے ملزمین کی براء ت در اصل پولیس عہدیداروں کی ناکامی ‘ ان کا تغافل اور لاپرواہی ہے اور ان کی تحقیقات میں بے شمار جھول اور خامیاں تھیں جن کی وجہ سے ملزمین عدالت سے بری ہونے میں کامیاب ہوگئے اور پہلو خان کے افراد خاندان کو انصاف نہیں مل سکا ۔پہلو خان مقدمہ کی دوبارہ جانچ اورتحقیقات میںخامیوں کا جائزہ لینے کیلئے تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے جس میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ تحقیقات میں کئی نقائص اور خامیاں تھیں اور ان کی نشاندہی کے باوجود تحقیقاتی عہدیداروں نے انہیں دور کرنا گوارا نہیں کیا اور قانونی مشورے کے خلاف چارچ شیٹ کو عدالت میں پیش کردیا گیا ۔ یہ در اصل ان کی لا پرواہی اور غیر ذمہ داری سے زیادہ ان کی ذہنی فرقہ پرستی اور تعصب کی وجہ سے ہوا ہے ۔ پہلو خان قتل کیس نے سارے ملک کو دہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اسکے خلاف ملک بھر میں احتجاج بھی کیا گیا تھا ۔ کئی گوشوں نے خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ اس وقت کی راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے ضابطہ کی تکمیل کیلئے مقدمہ درج کیا تھا اور اب جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ تحقیقاتی عہدیداروں نے بھی ذمہ داری سے کام کرنے اور خاطیوں کے خلاف ثبوت و شواہد اکٹھا کرنے کی بجائے محض خانہ پری کے انداز میںاپنا کام کیا اور عمدا ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیا اور جھول رکھے گئے جن کے ذریعہ خاطیوںکو عدالت میںسزا کی بجائے بر اء ت مل جائے ۔ پولیس عملہ اور تحقیقاتی عہدیداروں کو اس طرح کے تعصب سے کام لینے کی بجائے پیشہ ورانہ دیانت اور مہارت سے کام لینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنے فرائض سے غفلت برتی ہے مجرمانہ تغافل کیا ہے ۔ ان کی اسی متعصب ذہنیت کی وجہ سے پہلو خان کے قاتل انتہائی مختصر وقت میں عدالت سے برات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سزا سے بچ گئے ۔ تاہم اب ان کے خلاف ایک بار پھر شکنجہ کسا جا رہا ہے اور برات کے خلاف اپیل کی جا رہی ہے ۔
جو ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے اپنی رپورٹ میں ہر تحقیقاتی عہدیدار کی غلطیوں کی تفصیل پیش کی اور بتایا کہ کس نے کیا غلطی کی اور کس نے کس انداز سے دوسرے کی غلطی کو نظر انداز کردیا ۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ جو چارچ شیٹ ان تحقیقات کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی وہ بھی غلطیوں سے بھری ہوئی تھی اور استغاثہ کے ڈائرکٹر نے اس چارچ شیٹ کی پیشکشی کے خلاف رائے دی تھی اس کے باوجود ان کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے چارچ شیٹ عدالت میںپیش کردی گئی جس سے شبہ ہوتا ہے کہ تحقیقاتی عہدیداروں کی نیت ابتداء ہی سے ٹھیک نہیں تھی اور وہ حملہ آوروںاور خاطیوںکو سزاء دلانے سے زیادہ انہیں بچانے میںدلچسپی رکھتے ہیں اور یہ غلطیاںنہیں بلکہ ان کاسوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے تحت وہ ایسا کر رہے ہیں۔ ان شبہات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان عہدیداروں کی تحقیقات میں اعلی عہدیداران پولیس نے بھی کوئی رول ادا کیا ہو یا پھر سیاسی مداخلت ہوئی ہے ۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے اور اس سفارش اور رپورٹ کی بنیاد پر تحقیقات میں تغافل برتنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ یہ بھی حقیقت سامنے آسکے کہ آیا ان کی تحقیقات میں کوئی مداخلت ہوئی ہے یا پھر انہوں نے از خود ایسا طریقہ اختیار کرلیا تھا ۔
اب جبکہ ایس آئی ٹی نے بھی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے غلطیوں کی نشاندہی کرلی ہے اور غلطی کرنے والوں کا بھی پردہ فاش کردیا ہے تو ریاستی حکومت اور محکمہ پولیس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان خامیوںکو دور کرتے ہوئے پہلو خان قتل کیس میں ملزمین کی براء ت کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل دائر کرے ۔ ملزمین کو گرفتار کیا جائے ۔ ان کے خلاف نئے اور ٹھوس ثبوت اکٹھا کئے جائیں۔ عدالتوں میں موثر پیروی کی جائے ۔ استغاثہ کے مشورہ کے مطابق کام کیا جائے تاکہ ملزمین کو کیفر کردار تک پہونچایا جاسکے ۔ انہیںعدالت سے سخت سزائیں دلائی جاسکیں اور پہلو خان کے لواحقین کو انصاف مل سکے ۔