پہلی سہ ماہی کی جی ڈی پی مودی جی جواب دیجئے

   

روش کمار
قومی مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے اعداد و شمار منظر عام پر آچکے ہیں۔ ہندوستان کی کسی بھی نسل نے یہ اعداد و شمار نہیں دیکھے ہوں گے۔ 5 اگست کو جدید ہندوستان کے ابھرنے کے بعد ان اعداد و شمار نے رنگ میں بھنگ ڈال دیئے ہیں۔ اس وقت مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی قومی مجموعی پیداوار 23.9 فیصد آئی ہے۔ چوکس ہو جائیے۔ اقتصادی امور سے متعلق فیصلے سوچ سمجھ کر لیں بلکہ اب یہی ٹھیک رہے گا کہ سشانت سنگھ راجپوت کا ہی کوریج دیکھتے رہیئے۔ یہ بربادی کی ایسی سطح ہے جہاں سے آپ اب بیروزگاری کے سوالات پر غور کرکے کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب ہیکہ پڑھنے والا اور لکھنے والا دونوں میں سے کوئی نہیں بچے گا۔
اقتصادیات کے بارے میں ابھی تک دروغ گوئی سے کام لیا جارہا ہے جو ہے اس کے بارے میں کچھ بولنے سے گریز کیا جارہا ہے جو ہوگا یا جو نہیں ہوگا اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ کے ضلع میں پیٹھا بنتا ہے یا چوڑیاں بنتی ہیں کھاجہ بنتا ہے یا کھلونا بنتے ہیں اس کی برآمدات سے ہندوستان خود مکتفی بنے گا حیرت ہے۔کورونا سے لڑائی کا اعلان ہوا 64500 سے زائد لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہم وہ لڑائی ہار گئے ملک کو تمام غیر ضروری مسائل میں الجھایا گیا۔ معاشی صورتحال کے اس حال میں نوجوان نسل اور ہم تمام کس حد تک برباد ہوں گے اس کا تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ بے شک مودی جی بہار اسمبلی انتخابات کی جیت کے بعد واہ واہ میں لگ جائیں گے انہیں ایسی واہ واہ بہت ہے مگر نتیجہ کیا نکل رہا ہے۔ نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ نوجوانوں کے پاس نوکری نہیں جن کے پاس نوکریاں تھیں وہ چلی گئیں جن کے پاس ہیں وہ جانے والی ہیں۔ گودی میڈیا مسلسل عوام کو بیوقوف بنانے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ اب یہ کھیل بند ہو جانا چاہئے۔

عوام کا کوئی فائدہ نہیں
نیلے رنگ کا اندھیرا سفید بادلوں کا گھیرا بھی تھک کر سوتا سا لگا تب ہی بادلوں کا گھیر ٹوٹ کر الگ ہوتا دکھائی دیا۔ آہستہ آہستہ سرکتا ہوا دوسری طرف سے طیارہ آتا دکھائی دیا، دور آسمان سے ایک جلتی ہوئی روشنی دکھائی دی، کافی دیر کے بعد بھی وہ قریب نہیں آئی دراصل وہ تارا تھا۔ اس کے کچھ فاصلے پر ایک اور تارا تھا ایک میں زیادہ چمک تھی اور دوسرے میں مدھم روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ بہت دنوں بعد اس طرف دیکھنا ہو رہا تھا ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ گوئند پور میں واقع مکان کی چھت پر سویا کرتا تھا۔ یاد نہیں کب تاروں کی گنتی کرتا تھا یا نہیں۔ یہی یاد ہے کہ دہلی کے آسمان کی طرف کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ اس نے بھی میری طرف نہیں دیکھا۔ جس شہر میں لوگ آسمان کی اونچائی چھونے کے لئے آتے ہیں اس شہر کے لوگ آسمان نہیں دیکھتے آسمان میں کچھ ہوتا نہیں چھت پر مچھر دانی ڈالکر سونے کی عادت چند ہی محلہ جات میں بچی ہے۔ دہلی کی چھتوں کا ایک ہی مطلب رہا ہے جہاں سیاہ رنگ کی پانی کی ٹانکی ہوتی تھی جس میں پانی تیزی سے چڑھتا اور پھر اترتا تھا لوگ چھت پر ٹانکی دیکھنے آتے ہیں جب ٹانکی سے پانی رسنے لگتا۔ کبھی پہلے اس رات کا آسمان اس طرح دیکھنا ہوتا تھا باوزنگ سوسائٹی کے لوگ اپنی بالکنی سے آتی جاتی کاریں دیکھا کرتے ہیں۔ چھت کی سیلنگ دیکھتے ہیں جہاں چھت ہے وہاں ڈش اینٹینا لگاہے لوگ گھروں میں بند ہیں کئی دنوں سے چاند دیکھ رہا ہوں طرح طرح کے چاند۔ رات کی بندی ہے بندی اور چاند دونوں گھٹتے اور بڑھتے رہتے ہیں۔ اپنے اپنے موڈ کے حساب سے بندی کی طرح چاند اپنی جگہ ٹھہرسکتا نہیں بادلوں میں چھپ کر مٹتا رہتا ہے۔ بادلوں سے نکل کر کھلتا رہتا ہے شام کا انتظار طئے ہے جہاں سیدھے رات ہوا کرتی تھی وہاں پہلے شام ہوتی ہے کیا یہ اچھا نہیں!