پیشگی تفویض طلاق کے شرائط اور اس کا پس منظر

   

محمد اسد عل،ایڈوکیٹ
تفویض کے معنی سپرد کرنے کے ہیں اور اس کسی چیز کو سپرد کرنے کا حق اس شخص کو ہوتا ہے جس کے پاس وہ حق موجود ہو، یہ معاملہ کیونکہ طلاق سے متعلق ہے اور طلاق کا اختیار شرعاً مرد کو حاصل ہوتا ہے، اس لئے اگر بوقت ضرورت شوہر اپنی بیوی کو طلاق کا یہ اختیار سپرد کردے تو بیوی کے پاس بھی اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار اور قوت آجاتی ہے اور یہ قوت شوہر کے رہنے پر منحصر ہے چنانچہ وہ ایک طلاق کا اختیار دیں تو ایک، دو طلاق کا اختیار دیں تو دو، اگر تین طلاق کا اختیار دیں تو بیوی کو بھی اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے ، البتہ اگر شوہر مطلق طلاق کا اختیار سپرد کردیا ہو تو بیوی کتنی طلاقیں اپنے اوپر واقع کرسکتی ہے، اس کا دار مدار شوہر کی نیت پر ہے۔ اس نے جتنی کی نیت کی ہو، بیوی کو اتنی ہی طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ شریعت میں طلاق دینے کا اصل اور مستقل اختیار مرد کو حاصل ہے لیکن اگر مرد چاہے تو اپنا یہ اختیار بیوی کو یا کسی دوسرے شخص کو منتقل کرسکتا ہے۔ اس کو فقہی اصطلاح میں ’’تفویض طلاق‘‘ کہتے ہیں۔ ضرورت یا مصلحت کے وقت بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کا ثبوت اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ نبی اکرم علیہ الصلوۃ و السلام نے کچھ ناگواری کی وجہ سے ایک مہینے تک ازدواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی تھی جس کے بعد یہ آیات تخسیر نازل ہوئی جس کا ترجمہ اس طرح ہے۔ ائے پیغمبر آپ اپنے بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور یہاں کی رونق چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلاکر اچھی طرح سے رخصت کردوں اور تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور آخرت کے گھر میں کامیابی چاہتی ہو تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیکوکار عورتوں کے لئے بڑا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے۔ اُم المؤمنین سیدنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہے کہ جب مذکورہ آیات نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں ایک بات تمہارے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں مگر تم اس کے ردعمل میں جلدی مت کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا، پھر آپ نے مذکورہ آیتیں پڑھ کر مجھے سنائیں اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی بھی پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ میں نے عرض کیا۔ کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں گی؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی کامیابی کو ہی اختیار کرتی ہوں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ شریعت کے لحاظ سے اگر لڑکی والے یہ اندیشہ کریں کہ نکاح کے بعد شوہر لڑکی (بیوی) کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہو تو شریعت میں گنجائش ہے کہ نکاح سے پہلے شوہر سے اقرار نامہ لکھوا لیا جائے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ عقد یا نکاح کے بعد طئے شدہ شرائط ذیل کا پابند رہوں گا اور میں اپنی بیوی کی ازدواجی زندگی سے متعلق تمام حقوق اور روزمرہ زندگی کے فرائض جس میں جائے رہائش، روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ بچوں کی پرورش، تعلیم اور صحت کا خیال رکھوں گا۔ اگر مذکورہ بالا فرائض یا وعدوں میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی ہو یا اپنی بیوی سے ناروا سلوک کروں تو کسی مستند مفتی، معتبر عالم دین یا خاندان کے ذمہ داروں کے حکم سے مستقبل میں کسی بھی وقت ایک طلاق اپنے اوپر واقع کرکے اس نکاح سے الگ ہوجانے کا اختیار حاصل رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تحریری معاہدہ میں شامل فریقین پر ان شرائط کا لزوم ہوگا اور کسی بھی قسم کی خلاف ورزی شریعت کے خلاف ہوگی۔ تفویض طلاق کے دوسرے معاملے میں نکاح کے وقت عورت یا اس کے وکیل یا ولی یا نکاح پڑھانے والے قاری النکاح کی طرف سے ایجاب کرتے وقت یہ کہا جائے کہ میں نے اپنے آپ کو یا فلاں بنت فلاں کو آپ کے نکاح میں اس شرط پر دیا ہے کہ اگر فلاں فلاں کام کیا جائے یا نہ کیا تو اپنے معاملے کا اختیار فلاں کے ہاتھ میں ہوجائے گا، اب اگر مجلس نکاح میں شوہر اس ایجاب مشروط کو قبول کرلے گا تو ذکر کردہ شرائط میں سے کسی بھی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی مستند مفتی، معتبر عالم دین یا خاندان کے ذمہ داروں کے حکم سے ایک طلاق حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔
تنبیہ : واضح ہو کہ اگر ایجاب کے بجائے شوہر کی طرف سے مذکورہ شرطیں لگائی جائیں تو اس کا شرعاً اعتبار نہیں۔
تفویض طلاق کا اصل مقصد شادی شدہ خواتین پر مظالم کا انسداد ہے اور ساتھ ہی ساتھ شوہر کی بدسلوکی کو ختم کرنا ہے کیونکہ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت انصاف کو دی گئی ہے اور اگر شوہر ظلم کرتا ہے اور بیوی برداشت کرتی رہے تو یہ انصاف کے خلاف ہوگا۔ شریعت میں اس کیلئے سارے مسائل کا حل موجود ہے لیکن عام طور پر معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بعض عورتیں مرد کی جانب سے طلاق نہ دینے کی صورت میں معلق زندگی گذارتی ہے اور وہ ان حالات کی وجہ سے دوسری شادی بھی نہیں کرسکتیں لہٰذا ان حالات میں ایسے مسائل اور شرعی علاج تفویض طلاق ہے تاکہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور یہ بات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ تفویض کی معلومات حاصل کرتے ہوئے تحریری طور پر معاہدہ پر گواہوں کے دستخط لئے جائیں تاکہ بعدازاں عورتوں کو ناانصافیوں یا ظلم کا شکار بنتے ہوئے زندگی گذارنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اگر ہم نکاح کے وقت پیشگی تفویض طلاق کا سمجھوتہ کرلیں تو مرد اور خواتین دونوں کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ علیحدگی کی صورت میں مرد گناہوں سے بچ جائے گا اور خواتین کو انصاف حاصل ہوگا جس سے فریقین کی دنیا و آخرت کی زندگی اسلام کے مطابق کامیاب ہوگی۔ پیشگی تفویض کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کا سمجھوتہ کریں تو ہزاروں لڑکیاں بعض ظالم شوہروں کے ظلم سے بچ سکتی ہیں اور آنے والی نسل بھی تناؤ کا شکار نہیں ہوگی۔ بعدازاں، بعد ختم عدت کسی اور شخص سے شرعی طریقہ پر نکاح کرسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں مذکورہ بالا اُمور کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمجھوتہ نہایت اہم ہے۔ اُمید ہے کہ اس سے ہزاروں خواتین کو فائدہ حاصل ہوگا۔ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں سے ادباً گذارش کرتا ہوں کہ درج بالا مضمون پر منصفانہ روشنی ڈالیں اور وضاحت اور صراحت کرے تاکہ عامتہ المسلمین کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔