چانسلر ڈاکٹر محبوب الحق سے چیف منسٹر آسام کا انتقامی رویہ

   

محمد نعیم وجاہت

آج کل یونیورسٹی آف سائنس و ٹکنالوجی میگھالیہ اور اس کے چانسلر ڈاکٹر محبوب الحق کے بہت زیادہ چرچے ہیں۔ وہ فی الوقت تعصب و جانبداری اور انتقامی سیاست کا شکار ہیں اور انہیں گرفتار کرکے کریم گنج جیل پہنچادیا گیا جو گوہاٹی سے تقریباً 300 کیلو میٹر دور ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر محبوب الحق کا سوال ہے انہوں نے بڑی مصیبتوں و پریشانیوں اور صبرآزما مرحلوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک تعلیمی سلطنت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ نہ صرف یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میگھالیہ کے چانسلر ہیں بلکہ ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فاونڈیشن (ERDF) گوہاٹی کے صدرنشین بھی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے شمال مشرقی علاقہ میں فنی و اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں ایک انقلاب برپا کردیا جس کے صلہ میں انہیں کئی ایک غیرمعمولی ایوراڈس سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے اپنی علم دوستی، سادگی اور عاجزی و انکساری کے ذریعہ عوام کے دل جیتے ہیں تاہم فرقہ پرست طاقتیں ان کی تعلیمی سرگرمیوں اور اداروں کی کامیابی سے پریشان ہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق ان طاقتوں کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق کی پیدائش یکم ؍ ڈسمبر 1973ء کو آسام کے ضلع کریم گنج کے ایک چھوٹے سے گاؤں برچراء پربھوگول میں ہوئی۔ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میگھالیہ کی ویب سائٹ میں ان کے بارے میں جو تفصیلات دی گئیں ان کے مطابق ان کا بچپن بہت پریشان کن رہا ان کے والدین انتقال کر گئے اور بعد میں ایک سازش کا شکار ہوکر ان کے بھائی اپنی زندگی سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے محلہ میں ٹیوشن پڑھائے اور گھر میں اگائی گئی سبزی مقامی بازار میں فروخت کی۔ ان تمام مصیبتوں کے باوجود انہوں نے اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کی اور کریم گنج سے ہی دسویں جماعت میں سیکنڈ رینک سے کامیابی حاصل کی اور پھر جی سی کالج سلچر سے انٹرمیڈیٹ اور بی ایس سی آنرس میں امتیازی کامیابی حاصل کی اور پھر سال 2000ء میں باوقار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹر ان کمپیوٹر سائنس (MCA) کیا۔ اگرچہ ملک و بیرون ملک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پرکشش ملازمتوں کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے ایم سی اے کے بعد اپنے آبائی مقام واپس ہونے کو ترجیح دی اور ایجوکیشنل انٹر پرینئر کے طور پر اپنا کریئر شروع کیا۔ انہوں نے فبروری 2001ء میں صرف ایک کمپیوٹر اور چار طلبہ کے ساتھ تعلیمی اداروں کا سفر شروع کیا۔ اس وقت ان کی جیب میں صرف 85 روپئے تھے۔ منی پال گروپ کے تحت انہوں نے یہ کمپیوٹر ٹریننگ سنٹر شروع کیا۔ انہوں نے کمپیوٹرس اسمبل کرکے مارکٹ میں ان کی فروخت شروع کی جس کا مقصد ٹرینرس کیلئے کمپیوٹر لیاب کو فروغ دینا اور اس کیلئے مالیہ جمع کرنا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 5 سال میں ملک وہ کا دوسرا سب سے بڑا سنٹر بن گیا اور منی پال سے مسلسل 5 برس ایکسیلنس ایوارڈ حاصل کیا اور پھر کے جی تا پی جی اور پی جی سے پی ایچ ڈی تک تعلیمی اداروں کا جال بچھایا جہاں 7500 سے زائد طلبہ جڑے ہوئے ہیں، جس میں سے 20 فیصد ہونہار غریب طلبہ مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ محبوب الحق نے شمال مشرقی علاقہ میں جو تعلیمی انقلاب برپا کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ وہ یونیورسٹی آف سائنس و ٹکنالوجی میگھالیہ، ریجنل انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی، 9H مائل NEHU بلانگ سے جس کا الحاق ہے اور AICTE نئی دہلی کی منظورہ ہے۔ سنٹرل پبلک اسکول پتھرکنڈی (سی بی ایس سی سے ملحقہ)، سنٹرل پبلک اسکول بدراپور ملحقہ سی بی ایس ای)، خیرالنساء بیگم ویمنس کالج، بدر پور (سلچر یونیورسٹی آسام سے جس کا الحاق ہے) پروفیسر قمرالحق اسکول آف ایجوکیشن میگھالیہ (این سی ٹی ای سے منظورہ) یونیورسٹی آف اسکول آف لا اینڈ ریسرچ میگھالیہ (بار کونسل آف انڈیا نئی دہلی سے منظورہ)، اسکول آف بزنس سائنس میگھالیہ )اے آئی سی ٹی ای سے منظوری) HOUQUE-20 اور FACC (ان کے ذریعہ سیول سرویسیس کی تیاری کروائی جاتی ہے)، یونیورسٹی اسکول آف فارماسیوٹیکل سائنس، ویژن 50 اکیڈیمی، یونیورسٹی کالج آف ایورویدا اینڈ ریسرچ، پی اے سنگما انٹرنیشنل میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل جیسے باوقار اداروں کے بانی ہیں جس میں 50 فیصد نشستیں لڑکیوں اور 20 فیصد نشستیں غریب ہونہار طلبہ کیلئے محفوظ ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ چیف منسٹر آسام ہمنتا بسوا سرما جو اپنے اشتعال انگیز بیانات کیلئے بدنام ہیں، کافی عرصہ سے محبوب الحق کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہیکہ وہ ایک مسلم ماہرتعلیم کے عقل کو حیران کردینے والے علمی کارناموں سے حیران و پریشان ہے۔ اکثر ماہرین تعلیم کا یہی کہنا ہیکہ ہمنتا بسوا سرما نے فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبوب الحق کو گرفتار کروایا حد تو یہ ہیکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ محبوب الحق ایک طویل عرصہ تک جیل میں پڑے رہیں گے۔ آپ کو بتادیں کہ ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ یو ایس ٹی ایم کے وائس چانسلر، سنٹرل پبلک اسکول پرنسپل ہیرامتی سائکیا اور اساتذہ وجئے دتہ، عبدالرزاق، نعمان احمد اور عماد الرحمن کو بھی گرفتار کیا گیا۔ آسام پولیس امتحان میں فراڈ کے الزامات کے تحت تحقیقات کررہی ہے۔ ڈاکٹر محبوب الحق پر چیف منسٹر آسام نے FLOOD JIHAD شروع کرنے کا الزام عائد کیا۔ ساتھ ہی یونیورسٹی کی جانب سے جعلی ڈگریاں جاری کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہوئے اپنے تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ دوسری طرف میگھالیہ کے چیف سکریٹری ڈی پی واہلنگ کا کہنا ہیکہ USTM ایک ریاستی یونیورسٹی ہے جہاں تک ہمارا سوال ہے اس یونیورسٹی کو میگھالیہ اسمبلی کے ذریعہ منظور کیا گیا اور اس کی ڈگریاں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے مسلمہ ایسے میں اس کی ڈگریاں جعلی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک بات ضرور ہیکہ ڈاکٹر محبوب الحق کی گرفتاری حکومت میگھالیہ اور حکومت آسام کے درمیان سیاسی کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ چیف منسٹر آسام اور کچھ بی جے پی قائدین نے پرزور انداز میں پیش قیاسی کی تھی کہ ڈاکٹر محبوب الحق اب ایک طویل مدت تک جیل میں رہیں گے (جیسے کہ یہ لوگ خود عدالت ہوں) گوہاٹی ہائیکورٹ نے یو ایس ٹی ایم چانسلر ڈاکٹر محبوب الحق کی ضمانت منظور کرلی۔ یہ ضمانت ان کے خلاف سری بھومی پتھرکنڈ میں درج کیس نمبر 54/2025 میں دی گئی۔ دوسری طرف سخت الفاظ پر مبنی ایک مکتوب وزیراعظم نریندر مودی کو روانہ کیا گیا جس میں ممتاز شخصیتوں پر مشتمل گروپ Citizens For Fraternity نے مودی سے اس معاملہ میں فوری مداخلت کی اپیل کی۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی اور دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر ڈاکٹر نجیب جنگ نے مکتوب میں لکھا کہ ڈاکٹر محبوب الحق کی گرفتاری سیاسی انتقام ہے جس کا مقصد شمالی مشرقی ریاستوں میں تعلیم اور نگہداشت صحت کی ترقی پسند کوششوں کو روکنا اور اس طرح کی کوشش کرنے والوں کے حوصلے پست کرنا ہے۔ مکتوب میں یہ بھی لکھا گیا کہ یو ایس ٹی ایم کو میگھالیہ کی بہترین خانگی یونیورسٹی تسلیم کیا گیا ہے اور اب اس یونیورسٹی کے تحت 1100 بستروں والا ایک سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹل قائم کرنے کے پراجکٹ پر کام ہورہا ہے تاکہ علاقہ میں نگہداشت صحت کی ضروریات کی تکمیل کی جاسکے۔ بہرحال اب فرقہ پرستوں کو مسلم تعلیمی اداروں سے بھی چڑ ہونے لگی نتیجہ میں وہ دینی مدارس کی طرح عصری تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔