چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

   

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس ‘ریٹائرڈ
حضوراکرمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ اجازت ہے۔ آپ آقائے دوجہاںؐ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب کہیں طلاق کی نوبت آتی ہے تو عرش معلیٰ دہل جاتاہے۔ اگر ہم اس وقت اپنے ارد گرد کے واقعات کا جا ئزہ لیں تو پتہ چلتاہے کہ جہاں شادیاں بڑی جدوجہد‘ بڑی عرق ریزی اورغیرمعمولی جاں فشانی کے بعد انجام پارہی ہیں تو وہیں طلاق کے اتنے سانحے ہمارے سامنے آرہے ہیں کہ بس دل کانپ اٹھتاہے۔ جیساکہ پہلے بھی اس موضوع پر بحث کی جاچکی ہے کہ اس وقت دونوں شہروں کی دیوانی عدالتوں میں
CRPC SECTION
125کے تحت جتنے کیسیس چل رہے ہیں وہ لگ بھگ 90 فیصد مسلمان جوڑوں سے ہی وابستہ ہیں۔ ایک بار جب اس طرح کا کیس عدالت کی نذر ہوجاتاہے تو نتیجہ مکمل طلاق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر عدالت سے رجوع ہونے والے جوڑے اور ان کے والدین کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ ’’ نبھائو ‘‘ ناممکن ہی ہے تو پھر کیوں نہ آپسی بات چیت کے ذریعہ خیرخوبی کے ساتھ کسی رنجش اور دشمنی کے بغیر علحدگی اختیار کرلی جائے تاکہ دونوں ہی خاندانوں پر معاشی اور سماجی دبائو نہ پڑسکے اور وہ زمانہ کی رسوائی کا شکار نہ بنیں۔ حال ہی میں ایک ایسا واقعہ نظروں سے گزرا ہے کہ افہام وتفہیم کی کئی بیٹھکوں کے باوجود میاں بیوی کے ساتھ ساتھ دونوں ہی خاندانوں کے ذمہ داروں کے مابین کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا اور دشمنی اتنی بڑھی کہ پڑھے لکھے خاندانوں کے ان افراد نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیوں کے بجائے بلیاں اٹھالیں اور لڑکی کے پیشہ ور ڈاکٹر بھائی نے اپنے بہنوائی کے چھوٹے بھائی کو دے مارا(اس عمل سے مظلوم خاندان ظالموں کی تعریف میں آگیا) نتیجہ کیا ہونا تھا؟ وہی ہوا یعنی اس نوجوان کا سر پھٹ گیا‘ محلے والے جمع ہوگئے‘ پولیس آئی‘ پنچ نامہ کیا‘ دونوں خاندانوں کے بڑوں کو گرفتار کیا‘ انہیں پولیس اسٹیشن لیجایا گیا‘ کیس درج ہوا اور اب یہ خاندان اپنے افراد خاندان کے علاوہ پولیس کے جوانوں کی بھی ’’خدمت‘‘ کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہتے ہیں اور جو واقعی ان پڑھ ہیں ان کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن ایسی حرکتیں دیکھنے کے بعد ان دو طبقوں میں کیا کوئی امتیاز باقی رہ گیا ہے؟ اگر نہیں رہا تو ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم نہ تو اخلاق کو اہمیت دے رہے ہیں‘ نہ کردار کو اور نہ ہی اپنے مذہبی اقدار کو۔ اگر اس طرح کے سلسلے چلتے رہیںگے تو ہمارے سماج کا شیرازا بکھر جائے گا۔ایسی صورتحال سے وابستہ رہنے کی بجائے کیاہی بہتر ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس ناپسندیدہ اجازت کا استعمال کرلیں جسے ’’طلاق‘‘ کہاجاتاہے۔ ایسے جوڑوں کیلئے اچھے ڈھنگ سے نیک نیتی کے ساتھ اپنی بدنامی سے بچتے ہوئے‘ اپنے عقیدے کو متاثر کئے بغیر‘ اپنے مذہب کے جذبہ کو پامال کئے بناء عبدالحی ساحر لدھیانوی کے ان مشوروں ہی کا ماننا شائد بہتر ہی ہوگا کہ
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں !
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تعلق روگ ہوجائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا
ساحر نے اس نظم کے ذریعہ ہمارے سلگتے ہوئے سماج کو ایک پیغام دیاہے کہ ہم شخصی مخاصمت‘ شخصی بے بسی اور شخصی لعنتوں کو اپنے سماج پر مسلط کرنے کے بجائے اس طرح کے مسائل کی بہتر ڈھنگ سے یکسوئی کرلیں تاکہ اس طرح کے افسوسناک اور مذموم واقعات کا ہمارے معاشرہ پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ ایک طرف تو ہم رشتہ توڑنے کی باتیں کرتے ہیں اور پھر دوسری طرف نان نفقہ لینے کے لئے عدلیہ سے رجوع ہوجاتے ہیں۔ یہ کس طرح کی سوچ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک لڑکا اور لڑکی کی حال ہی میں علحدگی ہوگئی۔ لڑکے نے لڑکی سے خواہش کی کہ وہ کال سنٹر میں کام نہ کرے کیونکہ اس کی آمدنی خاطرخواہ ہے جس سے وہ بہترین زندگی گزارسکتے ہیں۔ لیکن لڑکی اس بات پر بضد رہی کہ وہ وہیں پر کام کرے گی اور رات ہی کی ڈیوٹی انجام دے گی۔ لڑکا مسلسل اصرار کرتارہا کہ وہ اس کی بات مان لے‘ لڑکی نے بات نہیں مانی اور نتیجہ طلاق کی شکل میں ظاہر ہوا۔ یہاں پر لڑکا بالکل حق پر کھڑا تھا جبکہ لڑکی اپنی بیہودہ ضدپر اڑی رہی۔ بہرحال طلاق ہوگیا۔ لڑکی والوں نے لڑکے کو 5 لاکھ روپئے جوڑے کی رقم دیئے تھے۔ لڑکے والوں نے بھی 5 لاکھ سے کچھ زائد ہی کا زیور چڑھایاتھا۔ لڑکی والے طلاق کے باوجود پولیس سے رجوع ہوئے۔ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے لڑکے والوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ 5 لاکھ روپے واپس کریں۔ لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہم رقم دینے کیلئے تیار ہیں تم ہمارا زیور لوٹادو۔ لیکن لڑکی والوں کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ وہ زیور واپس نہیں کریںگے اور 5 لاکھ بھی واپس لے لیںگے۔ یہ کس طرح کا رجحان ہے۔ اس پر ملت کو توجہ مرکوز کرنی ہوگی؟۔
تو آئیے ہم سب ملکر یہ عہد کریں کہ ہمارے اپنے جو بھی گھریلو مسائل ہیں اسے آنحضرتﷺ کی انمول‘ لافانی اور لاثانی تعلیمات کی روشنی میں امن وضبط اور حکمت و دانشمندی کے ساتھ اپنے حقیقی معنوں میں ’’بزرگوں‘‘ کے سائے میں بیٹھ کر حل کرلیں۔ اس طرح کے عمل سے یقین جانئے ہماری جیبیں بھی محفوظ رہیںگی اور ہمارے ’’ایمانی وقار‘‘ کو بھی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔