چلو دلدار چلو ، چاند کے پار چلو

,

   

چاند پر قدم رکھنے کی خوشی … زمین پر نفرت برقرار
ساچندریان ۔3 مشن … چار مسلم ئنسداں

رشیدالدین
’’ چلو دلدار چلو ، چاند کے پار چلو، ہم ہیں تیار چلو‘‘ ہندوستان کے مون مشن کی کامیابی اور چندریان۔3 کی کامیاب لینڈنگ پر سارے ملک میں جشن کا ماحول ہے۔ ایسے میں سوپر ہٹ فلم ’’پاکیزہ‘‘ کا یہ مقبول عام نغمہ ذہن میں گونجنے لگا۔ راج کمار اور مینا کماری پر فلمایا گیا یہ نغمہ 1972 ء میں جب کیف بھوپالی نے لکھا تو شائد کسی کے فہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہندوستان چاند پر کمند ڈالنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ زمین پر بیٹھ کر چاند کے راز معلوم کئے جاسکیں گے ۔ چلو دلدار چلو کا نغمہ آج بھی اردو زبان کی چاشنی اور صاف ستھری فلموں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ہندوستان کے مون مشن کی کامیابی کیلئے چار سال لگ گئے اور اسپیس کرافٹ چندریان ۔3 نے 40 دن میں 3.84 لاکھ کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے کامیاب لینڈنگ کے ذریعہ تاریخ رقم کی ہے۔ چاند کا تحقیقی مشن بھلے ہی چار سال پرانا ہے لیکن ہم کہیں گے کہ چاند پر قدم رکھنے کا مشن 1972 ء میں کیف بھوپالی کے اس نغمہ کے ساتھ شروع ہوچکا تھا اور راج کمار اور مینا کماری کا سپنا آج پورا ہوگیا۔ ایک اردو شاعر کی دور اندیشی کہیئے کہ فلمی نغمہ کے ذریعہ چاند کو مسخر کرنے کا جذبہ پیدا کیا اور 51 سال قبل چندریان مشن کی کامیابی کی خوشخبری دی ۔ راج کمار اور مینا کماری نے چاند کے پار چلنے کا جو سفر شروع کیا تھا وہ چندریان ۔3 کی لینڈنگ سے اختتام پذیر ہوا۔ خلائی تحقیق کے شعبہ میں ہندوستان کی بالادستی تسخیر قمر مشن کی کامیابی سے دنیا بھر میں قائم ہوگئی ۔ وزیراعظم سے لے کر ایک چپراسی تک اور ضعیف سے لے کر بچوں تک ہر کسی نے خوشیوں کا آپس میں جس انداز میں تبادلہ کیا وہ حقیقی ہندوستان کی تصویر پیش کررہا تھا ۔ کیا ہندو ، کیا مسلمان ہر مذہب اور ذات و فرقہ سے بالاتر ہوکر صرف ہندوستان دکھائی دے رہے تھے۔ ملک کو آج اسی ماحول کی ضرورت ہے جہاں مذہب ، ذات پات ، رنگ و نسل اور علاقے سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شامل ہوں۔ چندریان مشن نے ہر ہندوستانی کو تصوراتی طور پر چاند پر پہنچادیا ۔ چاند پر پہنچنے کی خوشی کے درمیان ایک دردناک خبر نے ہر درد مند دل رکھنے والے کو آسمان سے زمین پر پہنچادیا۔ خوشیاں اس وقت ماند پڑگئیں اور ماحول کو رنجیدہ بنادیا جب جھارکھنڈ میں جنونی ہجوم نے صرف 5000 روپئے کیلئے شمشاد انصاری کی جان لے لی۔ خوشی اور جشن کے دوران بھی مسلمانوں کے خون کے پیاسے اپنی پیاس بجھانے سے نہیں چوکے۔ عام آدمی کا احساس ہے کہ ہندوستان چاند پر قدم جمالے یا مریخ پر پہنچ جائے، حقیقی کامیابی اسی وقت ہوگی جب ملک میں نفرت ، تعصب اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا ۔ خلاء میں کامیابی سے زیادہ زمین پر امن کی ضرورت ہے کیونکہ امن سے خوشحالی، ترقی اور بھلائی ممکن ہے۔ ہندوستان چاند پر پہنچ گیا ، کاش زمین پر ہر ہندوستانی ہندو۔ مسلم کے بجائے انسان بن جائے۔ چندریان مشن کی کامیابی پر ہر ہندوستانی کی خوشی فطری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں کیا بدلاؤ آئے گا۔ کیا ہر ہندوستانی کے اچھے دن واپس ہوں گے؟ ہم فی الوقت چاند سے اترکر زمینی حقیقتوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں فی الوقت ریسرچ اور تحقیق کا کام نفرت کے خاتمہ کیلئے ہونا چاہئے ۔ کچھ ایسا نسخہ کیمیاء ایجاد کیا جائے جو محبت ، رواداری اور بھائی چارہ کے جذبہ کو فروغ دے۔ ہر ایک کی نظر میں دوسرا قابل احترام ہو ۔ چاند پر پہنچنے سے زیادہ خوشی عام آدمی کو اس وقت ہوگی جب عدم تحفظ کا ماحول ختم ہوگا اور ہر شہری کو یہ احساس ہو کہ ہندوستان پر اس کا بھی مساوی حق ہے ۔ چاند تک رسائی حاصل کرنا آسان ہے لیکن ملک کو فرقہ پرستی سے پاک کرنا اس سے بھی بڑا چیلنج ہے ۔ چندریان مشن کی کامیابی کی حقیقی خوشی اورجشن تو اس وقت ہوگا جب زمین پر ہر گھر میں خوشحالی ہوگی اور امن و امان کا دور دورہ ہوگا۔ ملک سے بیروزگاری ، غربت اور بیماری کا خاتمہ حقیقی معنوں میں کامیابی ہوگا۔ ہندوستان کے چاند پر پہنچنے کا فائدہ عام آدمی کو کیسے ہوگا۔ آزادی کے 75 سال گزرگئے ، ہر سال 15 اگست کو ساری قوم خوشیاں مناتی ہے لیکن آج تک قوم کو ذہنی غلامی سے آزادی نہیں ہوئی۔ ملک تو آزاد ہوگیا لیکن غریب آج بھی سرمایہ داروں کے غلام ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی ، مذہبی آزادی اور جینے کی آزادی ، دستور کے صفحات تک محدود ہوچکی ہے جبکہ غریب اور عام آدمی آج بھی دستوری حقوق سے محروم ہیں۔ ہندوستان میں ظلم کا شکار ہر شخص یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ کیا چاند تک پہنچنے سے ملک میں نفرت کا خاتمہ ہوگا۔ کیا فرقہ پرستی ختم ہوگی ، کیا ماب لنچنگ کے واقعات بند ہوں گے ، بے قصور مسلمانوں کے گھر اور دکانات پر بلڈوزر نہیں چلیں گے ؟ کیا حکومت اور نظم و نسق سے کرپشن اور جانبداری کا خاتمہ ہوگا، کیا مسلم خواتین کو حجاب کے نام پر ہراساں نہیں کیا جائے گا ، کیا ملک میں مسلم شناخت کے ساتھ سفر محفوظ رہے گا، کیا عبادت گاہوں پر بری نظریں نہیں پڑیں گی، کیا حق کے لئے آواز اٹھانے پر ملک دشمنی کا لیبل لگاکر جیلوں میں بند کرنے کا سلسلہ ختم ہوگا، کیا مسلمانوں کو کرایہ دار کے بجائے حصہ دار تسلیم کیا جائے گا ؟
چندریان۔3 مشن کی کامیابی کا سہرا گودی میڈیا وزیراعظم نریندر مودی کے سر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے جیسے کہ وہ اسرو کے سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ ہوں۔ حقیقت میں مشن کی کامیابی اسرو کے ان سائنسدانوں کی ہے جنہوں نے دن رات محنت کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کیا ۔ ’’ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک‘‘ کے مصداق چندریان مشین کی کامیابی میں مسلم سائنسدانوں نے بھی اہم رول ادا کیا لیکن افسوس کہ گودی میڈیا اور مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی حصہ داری کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ جب کبھی مسلمانوں کا نام آتا ہے تو ان کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں لیکن چار نوجوان سائنسدانوں نے فرقہ پرست طاقتوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ جسے ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا گیا وہاں کے دو طالب علم محمد کاشف (اعظم گڑھ ، اترپردیش) اور اریب احمد (مظفر نگر اترپردیش) چندریان مشن کی ٹیم کا حصہ رہے ۔ ان کے علاوہ تلنگانہ کے سرپور کاغذ نگر سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد مزمل علی اور مدھیہ پردیش کی ثناء علی نے چندریان۔3 کی روانگی سے لیکر کامیاب لینڈنگ میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو۔ جدوجہد آزادی میں قربانیوں سے لے کر ہندوستان کے لئے میزائیل ٹکنالوجی تیار کرنے تک ہر سطح پر مسلمان نمایاں دکھائی دیں گے ۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو ہندوستان کے میزائیل میان کے طورپر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ یہ الگ بات ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے کارناموں کو کمتر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک ملک میں مسلم دشمنی کا سوال ہے مودی حکومت نفرت کے سودا گروں پر لگام کسنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ جئے پور ۔ ممبئی ٹرین میں محافظ کے بھیس میں دہشت گرد کی فائرنگ سے تین مسلمانوں کی ہلاکت کا معاملہ ابھی تازہ تھا کہ اترپردیش میں لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوان کے والدین ماب لنچنگ کا نشانہ بن گئے ۔ راجستھان کے آلور میں لکڑی چرانے کے الزام میں وسیم نامی نوجوان کو ہجومی تشدد نے ہلاک کردیا۔ جھارکھنڈ میں شمشاد انصاری کو معمولی مسئلہ پر موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ ملک میں شائد ہی کوئی دن ایسا ہو جہاں کسی نہ کسی عنوان سے مسلمانوں کو نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ہریانہ میں فسادات کے بعد آج تک بھی مسلمان خودکو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ عبادتگاہوں اور مذہبی شخصیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق گورنر عزیز قریشی کو یہ کہنا پڑا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں ہیں اور برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ حکومت کی ناکامی اپنی جگہ تشدد اور ظلم کے خاتمہ کیلئے مزاحمت واحد راستہ ہے جسے مسلمانوں نے بھلادیا ہے۔ جب تک مسلمان مزاحمت کرتے رہے ظلم کے واقعات میں کمی دیکھی گئی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک جہاندیدہ شخصیت نے مشورہ دیا تھا کہ موجودہ حالات میں ملک کو یہ پیام دیں کہ ہم کسی پر ظلم کریں گے اور نہ ہی کسی کو ظلم کرنے دیں گے۔ انصاف قائم کرنے میں مسلمان ہمیشہ آگے رہیں گے۔جہاں کہیں بھی ظلم ہوگا مسلمان اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے اور کسی کو اپنے آپ پر ظلم کرنے سے بعض ر کھیں گے۔ مسلمان جب اپنی پہچان ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بنالیں گے تو پھر کسی ظالم کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ نشانہ بنائے۔