چندریان۔ 3 مشن کی کامیابیبھارت بسائے گا چاند پر بستیاں

   

محمد ریاض احمد
ہمارے ملک ہندوستان کو قدرت نے غیر معمولی قدرتی حسن سے نوازا، اس کے دامن کو وسیع و عریض سمندروں، گہرے دریاؤں، پانی سے بھرے مشکینروں کی مانند خوبصورت ندیوں، سرسبز و شاداب جنگلات، حد نگاہ تک پھیلے ہوئے میدانوں، بلند و بالا پہاڑوں، سرحدوں کی نگرانی کرتی پہاڑی چوٹیوں، نغمہ سرا جھرنوں، جھومتے آبشاروں اور ہنستے مسکراتے چہروں سے بھردیا۔ قدرت نے جہاں ہمارے ملک کو قدرتی حسن قدرتی وسائل سے مالا مال کیا وہیں یہاں کے لوگوں کو غیر معمولی ذہانت سے بھی نوازا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر دور ہر زمانے میں بھارتی شہریوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، غیر معمولی بھارتی ذہنوں نے علم ریاضی، علم فلکیات، علم جغرافیہ، علم حیوانات، علم نباتات، علم کیمیا، علم طبیعات، علم الارضیات، سائنس و ٹکنالوجی، طب انجینئرنگ غرض زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور کم از کم 11 مرتبہ بھارتیوں کو نوبل اعزاز سے نوازتے ہوئے بھارتیوں کی صلاحیتوں اور انسانیت کے لئے ان خدمات کو تسلیم بھی کیا گیا۔ ہر بھارتی شہری کے لئے سرزمین یہ اعزاز کی بات ہے کہ رب کائنات نے باوا آدم کو اس کرہ ارض پر اتارنے کے لئے زمین ہند کا ہی انتخاب کیا اور وہ متحدہ ہندوستان کے سرندیپمیں اتارے گئے۔ ہندوستان نے صدیوں سے ہی دنیا کو ایسے علوم عطا کئے یا مختلف علوم میں وہ کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں دنیا کامیابی و کامرانی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوئی۔ آج دنیا عقلوں کو حیران کردینے والی جس ترقی کی راہ پر کھڑی ہے اسے وہاں تک پہنچانے میں بھارتیوں اور عربوں کا اہم کردار رہا جس کے لئے دنیا کو ان کا احسان مند رہنا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے تو سارے مغرب سارے یوروپ کی ترقی عربوں اور بھارتیوں کی مرہون منت ہے۔ مثلاً ایک بھارتی ماہر علم نجوم برہما گپتا نے اگر 628 میں صفر “0” ایجاد نہ کیا ہوتا تو اور اس صفر کی اہمیت کو عرب ماہر فلکیات و ریاض داں و مورخ عبداللہ بن محمد بن موسیٰ خوارزمی اپنی عربی کتابوں کے ذریعہ واضح نہیں کرتے تو آج یوروپ اور مغرب میں جو ترقی و خوشحالی دیکھی جارہی ہے نظر نہیں آتی کیونکہ عرب سائنسدانوں، دانشوروں، فلسفیوں اور علماء کی تحریر کردہ کتب کے لاطینی اور پھر مختلف زبانوں بشمول انگریزی میں تراجم ہوئے اور ساری دنیا ان ہی ترجمے کی گئیں کتب کے ثمرات حاصل کررہی ہے۔ دراصل ہم بات کررہے ہیں خلائی سائنس میں بھارت کی غیر معمولی ترقی کی اگر دیکھا جائے تو بھارت کے سائنسدانوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی انتھک محنت و جستجو کے باعث ہی آج ہمارا وطن عزیز خلائی سائنس و ٹکنالوجی میں امریکہ، روس اور چین کی صف میں کھڑا ہے۔ چندریان 3 مشن کی کامیابی نے بھارت کو دنیا کا ایسا پہلا ملک بنادیا ہے جس نے چاند کے تاریک قطب جنوبی پر لینڈنگ کی جس کے ساتھ ہی سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس حصہ کے بارے میں کہا جاتا ہیکہ ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکی جس کے باعث وہاں تاریکی نے اپنا ڈیرا ڈال رکھا ہے اور اسی حصہ میں درجہ حرارت منفی 203 ہے۔ واضح رہے کہ 14 جولائی کو یہ مشن روانہ کیا گیا تھا اور پورے 40 دن میں وہ 3 لاکھ 84 ہزار 400 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے چاند پر اترنے میں کامیاب رہا۔ یہ کامیابی سارے ملک ، اسرو کے سائنسدانوں کی کامیابی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا بجٹ 25 ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔ اس کے برعکس اسرو کا بجٹ تقریباً 6 ارب ڈالر ہے ۔ اس کے باوجود اسرو کے ہزار سائنسدانوں نے جن میں 54 خواتین اور بے شمار مسلم سائنسداں بھی شامل ہیں، اپنی محنت کے ذریعہ خلائی سائنس کے شعبہ میں بھارت کو دنیا میں پہلے مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔ واضح رہے کہ اسرو نے اس سے قبل 2019 میں چندریان مشن ۔ 2 لانچ کیا تھا لیکن وہ چاند کی سطح پر بحفاظت اترنے میں ناکام رہا۔ نتیجہ میں سائنسدانوں میں مایوسی پیدا ہوگئی تھی۔ اس وقت کے اسرو سربرہ KSIVAN اس قدر غمزدہ ہوگئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے اور مودی جی نے انہیں گلے سے لگاکر دلاسا دیا تھا۔ اس وقت مختلف اپوزیشن قائدین نے مودی جی پر منحوس ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے قدم اچھے نہیں لانچنگ کے وقت ان کی موجودگی بدشگون ثابت ہوئی اور مشن، ناکام رہا (حالانکہ اپوزیشن کو اس طرح کی توہم پرستی کی باتیں نہیں کرنی چاہئے تھیں لیکن اپوزیشن نے اس ضمن میں کئی واقعات بطور مثالیں بھی پیش کی) آپ کو بتادیں کہ چندریان مشن ۔ 1 کی 22 اکتوبر 2008 میں کامیاب لانچنگ کی گئی اور لانچنگ کے تمام مقاصد کی تکمیل کرنے کے بعد وہ 29 اگست 2009 کو لاپتہ ہوگیا۔ اس کے لئے PSLV-C11 لانچ وہیکل استعمال کی گئی تھی۔ اس مشن پر 7 کروڑ 90 لاکھ ڈالرس کے مصارف آنے تھے جبکہ چندریان 2 مشن پر 14 کروڑ ڈالرس خرچ کئے گئے۔ چندرایان 3 مشن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس پر 8 کروڑ ڈالرس کے مصارف آئے ہیں ۔سطور بالا میں ہم بھارتی اور عرب سائنسدانوں کی غیر معمولی صلاحیتوں ان کی ایجادات کی بات کررہے تھے۔ ہم نے صفر کی ایجاد کا حوالہ بھی دیا۔ اس بارے میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ صفر برہما گپتا نے ایجاد کیا اور عربوں نے ساری دنیا میں اس کے استعمال کو عام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ مامون کے دور حکمرانی میں اپنے وقت کے مشہور اسکالر محمد بن ابراہیم نے ریاضی بالخصوص صفر کے بارے میں تحریر کردہ ایک سنسکرت رسالہ کا عربی میں ترجمہ کیا اور پھر بابائے الجیراء محمد بن موسیٰ الخوار زمی نے اس رسالہ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا چونکہ وہ خود ایک ماہر ریاضی داں تھے اس لئے اس پر بے شمار کتابیں تحریر کی اور ان کتابوں کے لاطینی زبان میں ترجمے ہوئے بعد میں انگریزی زبان میں ان کے تراجم کئے گئے۔ اس طرح سارے مغرب؍ یوروپ میں سائنس و ٹکنالوجی اور طب و انجینئرنگ غرض ہر شعبہ کو فروغ حاصل ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جہاں تک بھارت کی خلائی سائنس میں کامیابی اور عالمی سطح پر اہم مقام حاصل کرنے کا سوال ہے۔ اگرچہ اس سفر کا آغاز 1962 میں ہوا تاہم 1969 میں اسرو کے قیام سے ہی سارے ملک کے خلائی سائنس کا سفر شروع ہوا اور 54 سالہ سفر میں آریہ بھٹ سے لیکر EOS-06 سٹیلائٹس (اس سٹیلائٹ کے ساتھ 8 NANO سٹیلائٹس بھی خلاء میں روانہ کئے گئے تھے) تک ہمارے ملک نے 120 سے زائد سٹیلائٹس خلاء میں خلاء میں داغے ہیں (جبکہ 22 اپریل 2023 تک بھارت نے 34 ملکوں کے 424 سٹیلائٹس کو داغنے کا اعزاز بھی حاصل کیا جنہیں اسرو نے اپنے کمرشیل آرم NSIL سابق نام ANTRIX کے ذریعہ خلا میں بھیجے اور ان کے لئے پولار لانچ وہیکل اور جی ایس ایل وی MKIII، PSLV-XL کا استعمال کیا گیا۔ 15 فروری 2017 کو اسرو نے PSLV-XL کے ذریعہ بیرونی ممالک کے 104 سٹیلائٹس لانچ کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا اور دلچسپی کی بات یہ ہیکہ اس میں 96 سٹیلائٹس امریکہ کے تھے۔ صرف ایک پرواز کے ذریعہ اس قدر زیادہ سٹیلائٹس کو خلاء میں بھیجنے کا اعزاز صرف اسرو کو حاصل ہے۔ اسرو کے خلائی سائنس بالخصوص سٹیلائٹس لانچنگ کو یقینی بنانے میں پولار۔ سٹیلائٹ لانچ وہیکل (PSLV) جیو سنکروینٹس سٹیلائٹ لانچ وہیکل (GSLV)، جیو سنکرونیٹس سٹیلائٹ لانچ وہیکلس ایم کے ۔ III (LVM3) کا اہم کردار رہا۔ خلائی سائنس کے سفر میں 1969 میں اسرو اور 1972 میں اسپیس کمیشن کے قیام سے غیر معمولی تیزی آئی اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ 1975 میں ملک کا پہلا سٹیلائٹ آریہ بھٹ خلاء میں داغا گیا۔ دراصل اسے قدیم بھارت کے ریاضی داں، علم فلکیات کے ماہر آریہ بھٹ سے موسوم کیا گیا۔ اس طرح 1979 میں بھاسکر میگا۔ I 1980 میں روہنی RS-I ، 1981 میں بھاسکر II داغا گیا (بھاسکر بھی بھارت کے ایک ریاضی داں تھے۔ اگر دیکھا جائے تو بھارت کی خلائی سائنس میں کامیابی کا سہرا حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کو بھی جانا چاہئے جنہوں نے میسور میں راکٹس کے ذریعہ انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے۔ ان کے خلاف کامیابی بھی حاصل کی یہ اور بات ہے کہ غداروں کے باعث بعد میں انگریزوں نے انہیں شہید کیا لیکن افسوس کہ جس طرح انگریزوں پر ٹیپو سلطان کے نام سے کپکپی طاری ہو جاتی تھی اسی طرح ہمارے ملک کے خود ساختہ قوم پرستوں اور فرقہ پرست درندوں کی بھی ان کا نام سنتے ہی حالت غیر ہو جاتی، کاش کے ٹیپو سلطان سے بھی کسی سٹیلائٹ کو موسوم کیا جاتا۔ ہندوستان کی خلائی سائنس میں کامیابی کی تاریخ اسرو کے بانی ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کے بغیر نامکمل رہے گی۔ آپ کو بتادیں کہ اسرو کا سابقہ نام 1962 میں انڈین نیشنل کمیٹی فار اسپیس ریسرچ (INCOSPAR) تھا۔ اسی طرح ملک کے نیوکلیر فزیست ہومی جہانگربھا بھا کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا ہے۔ بھارت کی خلائی سائنس میزائیل ٹکنالوجی اور جوہری طاقت بننے میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے کردار کو کوئی بھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بھارت کے میزائیل اور جوہری ہتھیاروں کے فروغ سے متعلق پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے انہیں میزائیل میان آف انڈیا کہا جاتا ہے۔ پوکھران 11 جوہری آزمائشی دھماکہ کے دوران وہ چیف پراجکٹ کوآرڈینیٹر تھے ۔