چھ اسپتالوں میں علاج سے انکار کے بعد دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ولی اختر کی موت

,

   

پروفیسر ادتیہ نارائن مشرا نے میڈیا کو بتایا کہ اگر اختر کا ایک مرتبہ بھی علاج ہوجاتا تو وہ شائد آج زندہ ہوتے۔
نئی دہلی۔دہلی یونیورسٹی کے محکمہ عربی میں کام کرنے والے ایک پروفیسر ولی اخترخانگی اسپتالوں میں علاج سے انکار کے بعد منگل کے روز داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پروفیسر اختر پچھلے ایک ہفتہ سے بیمار تھے اور ان کے اندر کرونا وائرس کی علامتیں پائی گئی تھیں۔

اس کے بعد سے گھر والے انہیں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال لے کر گھوم رہے تھے کم سے کم دہلی او رنوائیڈا کے چھ اسپتالوں سے وہ رجوع بھی ہوئے تھے۔ فیملی اور ساتھیوں نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ اسپتالوں نے انہیں بھرتی کرنے سے انکار کردیا اور کویڈ19کی علامتی دیکھائی دینے کے باوجود انہیں بیڈ فراہم کرنے سے انکار کیاہے۔

آخر کاراختر کے ساتھیوں نے انہیں جامعہ نگر میں ایک خانگی اسپتال میں بھرتی کروایا جہاں پر منگل کے روز4بجے کے قریب ان کا ٹسٹ کیاگیاتھا۔تاہم ٹسٹ کی رپورٹ آنے سے قبل منگل کے روز6:30کے قریب وہ کرونا وائرس سے جانبرنہ ہوسکے۔

نیوز 18اُردو کو دئے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ادتیہ نارائن مشرا‘ دہلی ہویونیورسٹی ٹیچرس اسوسیشن کے سابق صدرنے صحت عامہ کے انتظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

YouTube video

پروفیسر ادتیہ نارائن مشرا نے میڈیا کو بتایا کہ اگر اختر کا ایک مرتبہ بھی علاج ہوجاتا تو وہ شائد آج زندہ ہوتے۔
بڑی آسانی کے ساتھ اسپتال نے انکار کردیا او رکہاکہ ”یہ ناممکن ہے کہ کوئی مریض اور اس کی دیکھ بھال سے ہم انکار کریں“۔

شاہین باغ علاقے کے رہنے والے پروفیسر اختر کو دومرتبہ عربی محکمہ کے صدر کے طور پر منتخب کیاگیاتھا