چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے

,

   

مودی وزارت… کپتان کی ناکامی چھپانے ٹیم میں تبدیلی
سطح کے نیچے طوفان … ایک بھی مسلم وزیر نہیں
رشیدالدین

ٹیم چاہے کرکٹ کی ہو یا پھر کسی حکومت کی کامیابی یا شکست کا دارومدار کپتان کی قیادت پر ہوتا ہے ۔ کھیل کے میدان میں ٹیم کا مظاہرہ ناقص ہو یا کسی حکومت کی کابینہ عوام کی توقعات پر اترنے میں ناکام ہوجائے تو دونوں صورتوں میں ٹیم کے چند ارکان کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا۔ قیادت اور رہنمائی جیسی ہوگی ، نتیجہ بھی اسی طرح کا برآمد ہوگا ۔ ان دنوں سیاسی میدان ہو یا اسپورٹس ٹیم کے ناقص مظاہرہ کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے کپتان تیار نہیں ہیں اور ناکامی یا شکست کا ٹوکرا کسی اور کے سر ڈال کر خود ذمہ داری سے بچ جاتے ہیں۔ جس طرح کسی کلاس کے پرفارمنس کا انحصار ٹیچر کی تعلیم پر ہوتا ہے اور ٹیچر کی نااہلی اور تساہل کے لئے طلبہ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ویسے ہی ٹیم کا کپتان چاہے وہ چیف منسٹر ہو یا وزیراعظم اپنا دامن نہیں بچاسکتے۔ بہتر مظاہرہ ہو یا ناقص دونوں صورتوں میں برابر کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں بدلتے اقدار نے اس روایت کو ختم کردیا، جب ٹیم کا سربراہ خود بھی اچھے اور برے حالات کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتا تھا۔ نریندر مودی کو دوسری میعاد کے دو سال بعد حکومت کی ناکامیوں کا احساس ہوا اور انہوں نے کابینہ میں بڑے پیمانہ پر تبدیلیاں کی ہیں۔ چند وزراء کی تبدیلی کے ذریعہ یہ تاثر دیا گیا کہ وہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے ذمہ دار تھے۔ کپتان اور کمانڈر اچھا ہو تو کرکٹ ٹیم اور فوج کبھی بھی شکست سے دوچار نہیں ہوسکتی۔ جب رہنمائی اور قیادت میں کمی یا خامی رہ جائے تو پھر ٹیم سے بہتر مظاہرہ کی توقع کرنا فضول ہے۔ نریندر مودی کو اپنی ناکامی کا وبال دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنی جگہ کسی اور کو قیادت کا موقع دینا چاہئے ۔ کب تک وزراء کی تبدیلیوں کے ذریعہ خود کو بچانے کی کوشش کی جائے گی ؟ کورونا سے نمٹنے میں ناکامی ہو یا پھر آسمان کو چھوتی مہنگائی معیشت کا انحطاط ہو یا بڑھتی بیروزگاری ، ان تمام کے لئے نریندر مودی ذمہ دار ہیں۔ مودی نے اقتدار کے ایک سال میں مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا لیکن سات برس بعد مہنگائی کی جو حالت ہے ، اس کے لئے وزیراعظم نہیں تو کون ذمہ دار ہوں گے ؟ معیشت کے زوال کا سبب بننے والے نوٹ بندی کے فیصلے کے لئے صرف اور صرف مودی ذمہ دار تھے۔ کورونا کو بھگانے کے لئے علاج کے بجائے تالی ، تھالی اور موم بتی جلاؤ اور بجھاؤ کا کھیل کس نے کھیلا تھا۔ اپنے غلط فیصلوں کی سزا وزراء کو دینا کہاں کا انصاف ہے۔ وزیر صحت کی وزارت سے علحدگی کے ذریعہ حکومت نے کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے ۔ معاشی انحطاط کی ذمہ دار وزیر فینانس کی کابینہ میں برقراری سے پتہ چلتا ہے کہ نرملا سیتا رامن نے بی جے پی سے قربت رکھنے والے صنعتی گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کیا اور یہی وزیراعظم کی مرضی تھی ۔ وزارت عظمی کی دوسری میعاد میں پہلی مرتبہ 12 وزراء کو کابینہ سے علحدہ کرتے ہوئے 43 وزراء کو حلف دلایا گیا ۔ 7 منسٹر آف اسٹیٹ کو کابینی درجہ دیا گیا ۔ 15 کابینی اور 28 منسٹرس آف اسٹیٹ نے حلف لیا ۔ وزراء کی تعداد میں اضافہ سے کابینہ کی تعداد 77 ہوگئی جن میں 30 کابینی اور 47 منسٹر آف اسٹیٹس ہیں۔ جن 12 وزراء کو کابینہ سے علحدہ کیا گیا ، ان میں ڈاکٹر ہرش وردھن ، روی شنکر پرساد اور وکاش جاؤڈیکر کے نام ہر کسی کو چونکا دینے کیلئے کافی تھے۔ حلف برداری سے چند گھنٹے قبل تک بھی انہیں پتہ نہیں تھا کہ وزارت کی کرسی کھسکنے والی ہے۔ یہ تینوں وزراء ہر معاملہ میں حکومت کا دفاع کرنے کیلئے ہراول دستہ کی طرح ہوتے تھے ۔ جو لوگ کل تک حکومت کی زبان تھے، وہ اچانک بے زبان ہوگئے ۔ حکومت کو ہر بحران اور مصیبت سے بچانے والے خود بحران کا شکار ہوگئے ۔ ان تینوں کی علحدگی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چمچہ گری کی بھی ایک حد ہونی چاہئے جو لوگ چمچہ گری میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں تو ان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے۔ ملک کو حکومت کی ہر خبر دینے والے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاؤڈیکر کو چند گھنٹے قبل تک بھی یہ اطلاع نہیں تھی کہ ان کا پتہ کابینہ سے کٹنے والا ہے ۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود یہ تینوں وزراء مودی کی کسوٹی پر کھرے ثابت نہیں ہوئے۔ دراصل حکومت کے بچاؤ میں غلو نے عوام میں ان کا اعتبار ختم کردیا تھا۔ ہم ضرور یہ کہنا چاہیں گے کہ جب تک مودی کو ان کا جھوٹ پسند آیا ، پذیرائی کرتے رہے اور جب جھوٹ بے اثر ہوگیا تو گھر واپسی کردی۔ کابینہ میں بڑے پیمانہ پر تبدیلی پانچ ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کی گئی ۔ بی جے پی کو یو پی اور گجرات میں سخت چیلنج کا سامنا ہے اور پنجاب میں کانگریس سے اقتدار چھیننے کا خواب ہے۔ یو پی اے گجرات کے قائدین کی ناراضگی دور کرنے کیلئے ان ریاستوں کو زائد نمائندگی دی گئی۔ کانگریس سے بغاوت کرنے والے جونیئر سندھیا اور نارائن رانے کو بطور انعام وزارت کا تحفہ دیا گیا ۔ بی جے پی قائدین کا یہ دعویٰ ہے کہ مودی نے نوجوان وزارت کی تشکیل عمل میں لائی ہے۔ زیادہ تر وزراء کی عمر 55 تا 58 کے درمیان ہے۔ 14 ایسے وزراء ہیں جن کی عمر 50 سے کم ہے۔ مودی نے کارکردگی بہتر بنانے کے نام پر نوجوانوں کو موقع دیا اور عوام کے سامنے وزارت کو ینگ دکھانا چاہتے ہیں۔ جب عمر کی بنیاد پر وزراء کو علحدہ کیا گیا تو پھر اس کا اطلاق مودی ، راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ پر کیوں نہیں ؟ ٹیم کی بہتر کارکردگی کے لئے ضعیف قیادت نہیں بلکہ نوجوان قیادت کی ضرورت پڑتی ہے۔

مودی وزارت کے 43 وزراء نے حلف لیا لیکن ایک بھی مسلم وزیر کو شامل نہیں کیا گیا۔ مودی کے اس اقدام نے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور مسلمانوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے دعوے جھوٹے ثابت کردیئے ۔ کابینہ میں پسماندہ طبقات اور خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کیا گیا لیکن مودی کو ایک مسلمان کی شمولیت کا خیال نہیں آیا ۔ بی جے پی کابینہ میں پانچ اقلیتی نمائندوں کی موجودگی کا دعویٰ کر رہی ہے ۔ اس دعویٰ سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ بی جے پی کا کیا سلوک ہے۔ 43 وزراء میں کیا بی جے پی کو ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آیا جو مودی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ درباری مذہبی رہنماؤں اور قائدین سے ملاقات کے موقع پر مودی مسلمانوںکی پسماندگی پر مگرمچھ کے آنسو بہانے اور تعلیمی و معاشی ترقی کے دعوے کرنے سے نہیں تھکتے لیکن جب کابینہ کی تشکیل کا معاملہ آئے تو مسلمان یاد نہیں آتے۔ سیاسی فائدہ اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے اذان کے موقع پر تقریر روک کر مسلم جذبات کے احترام کا ڈرامہ کیا گیا ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن نریندر مودی اپنی کابینہ میں دلت اور پسماندہ طبقات کو برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے بازو کسی مسلمان کو نہیں دیکھ سکتے۔ مودی وزارت میں مسلم کوٹہ کے تحت جو وزیر پہلے سے موجود ہیں، وہ کس قسم کے ہیں، اس بارے میں قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ مسلم وزیر کی حیثیت سے موجود شخصیت کے کارناموں اور حرکات و سکنات کے بارے میں بولنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ مودی وزارت میں عملاً کوئی مسلم وزیر ہی نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں بڑے پیمانہ پر تبدیلیاں سطح کے نیچے طوفان کا اشارہ دے رہی ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار میں دوریاں اور اقتدار میں حصہ داری نہ دیئے جانے پر قائدین کی ناراضگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہر کسی کو مطمئن کرنے کیلئے جہازی سائز کی کابینہ تشکیل دی گئی۔ نظریاتی پارٹی کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی میں بے چینی کئی ریاستوں میں دیکھی جارہی ہے۔ جمبو کابینہ کی حلف برداری صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کیلئے تھکا دینے والی زحمت تھی ۔ مبصرین کے مطابق اگر عوام اور پارٹی میں بے چینی میں اضافہ ہوجائے تو نریندر مودی میعاد کی تقسیم سے قبل انتخابات کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عوام کو بہتر علاج فراہم کرنے میں ناکام مودی حکومت ویکسین کو ملک کے لئے زندہ طلسمات کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ یہ بات سائنسی تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ ویکسین کورونا کے پھیلاؤ میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔ ویکسین کی مہم ایک طرف جاری ہے تو دوسری طرف کئی ریاستوں میں تیسری لہر نے دستک دیدی ہے۔ ویسے بھی ویکسین اسکام کا شکار ہوچکی ہے۔ ملک کے کئی مقامات پر ویکسین کے نام پر نمک کا پانی دیئے جانے کے معاملات منظر عام پر آئے اور گرفتاریاں کی گئیں۔ یہ تو چند ایک معاملات تھے جو منظر عام پر آگئے ۔ دیہی علاقوں میں پتہ نہیں ویکسین کے نام پر کیا کچھ دیا جارہا ہے ۔ ہندوستان میں نقلی ویکسین دی جارہی ہے لیکن برازیل کو جو اصلی ویکسین دی گئی تھی ، اس میں کمیشن کے حصول کے الزامات کے بعد برازیل کی حکومت نے ہندوستان سے معاملت ترک کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ بات جب تحقیقات کی چل پڑی ہے تو فرانس میں رافیل معاملت کی تحقیقات بھی عوام کے لئے دلچسپی کا باعث بن چکی ہے۔ جنگی طیاروں کی خریدی میں بھاری کمیشن کی شکایت پر فرانس کے سابق صدر کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے۔ فرانس کی حکومت نے ایک خصوصی جج کا تحقیقات کے لئے تقرر کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ویکسین اور جنگی طیاروں کے معاملہ میں دیگر ممالک تحقیقات کر رہے ہیں تو پھر مودی حکومت تحقیقات سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ کابینہ میں تبدیلیوں پر مظفر وارثی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے