چیف منسٹروں پرحکم چلانے کے خواہاں گورنر

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہندوستان میں 28 ریاستیں ہیں، پڈوچیری اور دہلی ایسے دو مرکزی زیرانتظام علاقہ ہیں جہاں مقننہ بھی ہے۔ جموں و کشمیر دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کئے جانے سے قبل ایک ریاست تھی۔ ہر ریاست میں گورنر اس کا سربراہ ہوتا ہے۔ ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کیلئے انتخابات ہوتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان کا مختلف اسمبلی حلقوں سے انتخاب عمل میں آتا ہے اور سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کو تشکیل حکومت کی دعوت دی جاتی ہے (سب سے بڑی پارٹی کا مطلب یہ کہ جس پارٹی کے منتخب ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے) اور وہ بحیثیت چیف منسٹر اپنے عہدہ اور رازداری کا حلف لیتا ہے اور چیف منسٹر ریاست کے عوام کا منتخبہ لیڈر ہوتا ہے اور چیف منسٹر کے مشورہ پر وزراء مقرر کئے جاتے ہیں اور یہ ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام ہے جبکہ ہندوستان اس نظام کو کئی دہوں سے اپنا رہا ہے اور اس نظام نے بہتر کام بھی کیا اور جو معمولی غلطیاں یا خامیاں ہوتی ہیں، انہیں فوری درست بھی کیا گیا۔
ایک حکومت
تاہم ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو ویسٹ منسٹر نظام کو پسند نہیں کرتے توسیع تک وہ ریاستوں کو بھی پسند نہیں کرتے، ان کا حال یہ ہے کہ وہ منتخبہ مقننہ کو بھی پسند نہیں کرتے، یہاں تک کہ یہ لوگ چیف منسٹر کو تک پسند نہیں کرتے، بحیثیت مجموعی یہ ایسے لوگ ہیں جو ریاستی حکومتوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ استدلال ہوتا ہے کہ 1426 ملین آبادی کے حامل ملک ’’چین‘‘ میں ایک حکومت ہوسکتی ہے تو 1412 ملین آبادی رکھنے والے ہندوستان میں ایک حکومت کیوں نہیں ہوسکتی؟ ویسٹ منسٹر ماڈل کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ایسے مخالفین میں بعض کو ریاستوں کے گورنرس مقرر کیا گیا ہے۔
جہاں تک ریاستی گورنر کا سوال ہے، درحقیقت یہ ریاست کا خطابی سربراہ ہوتا ہے (برطانوی شہنشاہ کی طرح) اور گورنر کے نام پر حکومت چلائی جاتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے دستور نے گورنروں کے فرائض ان کے اختیارات و حدود کا تعین کردیا ہے اور آرٹیکل 163 میں اس بارے میں اس کی کچھ یوں صراحت کی گئی: ’’ایک مجلس وزراء ہوگی اور اس کی سربراہی چیف منسٹر کریں گے اور وہ (چیف منسٹر) گورنر کو ان کے کاموں کی انجام دہی میں تعاون کریں گے اور مشورہ دیں گے، سوائے ان فرائض کے جس کا دستور ہند میں صرف گورنر کو اختیار تمیزی دیا گیا ہے۔ دستور کی مذکورہ دفعہ میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ بالکل سیدھی سادھی زبان میں کہا گیا ہے اور ویسٹ منسٹر ماڈل کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی ایسا کیا گیا ہے جو ہم نے اپنایا ہے۔ دستور کی دفعہ 163 کا مطلب یہی ہے کہ وہ خود گورنر اور چیف منسٹر کے اختیارات کا نہ صرف تعین کرتا ہے بلکہ اس کا اعتراف بھی کرتا ہے، اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
حدود سے تجاوز کرنا
اس کے باوجود ہمارے یہاں کئی ایسے گورنر ہیں جو وزرائے اعلیٰ پر حکم چلانے کے خواہاں رہتے ہیں اور اصل میں وہ چیف منسٹر کی طرح اختیارات کے حامل بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جہاں تک گورنروں کے فرائض کا سوال ہے، کسی بل کو قانون بنانے کیلئے گورنر کی رضامندی یا منظوری درکار ہوتی ہے۔ دستور کی دفعہ 200 اس بارے میں کہتی ہے کہ گورنر کسی بھی بل کو قانون بننے کی منظوری دے سکتا ہے یا اسے بناء منظوری کے روکے رکھ سکتا ہے یا اسے صدر کے غور کیلئے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی بل کی منظوری روک دی جاتی ہے تو پھر اس بل کا ازسرنو غور کیلئے مقننہ کو واپس کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر مقننہ اس بل کو بناء کسی ترمیم کے یا ترمیم کے ساتھ دوبارہ منظور کرتی ہے تب گورنر کیلئے اس کی منظوری ضروری ہوجاتی ہے۔کئی ایسے گورنر ہیں جو بلز کو روکے رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گورنر بل پر غور کررہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک گورنر کتنی مرتبہ بل کا مطالعہ کرتا ہے اور اس پر غور کرتا ہے؟ اگر وہ بلز کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے تو اسے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے تو گورنر ریاستی حکومتوں کے خلاف متضاد اقدامات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسی ریاستی حکومت ہے جو نئی تعلیمی پالیسی اور خودساختہ سہ لسانی فارمولہ کی سخت مخالف ہے لیکن اس ریاست کے گورنر نے اس معاملے میں ریاستی حکومت کے متضاد موقف اختیار کیا جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس ریاست کے ارکان پارلیمان نے جنہیں ریاستی حکومت کی زبردست تائید و حمایت حاصل ہے، صدرجمہوریہ کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں گورنر کی بازطلبی کا مطالبہ کیا گیا۔
ایسے گورنر جو سخت ریمارکس کرتے ہیں
حال ہی میں ایک گورنر نے کہا کہ چھترپتی شیواجی زمانہ قدیم کے آئیکن یا ہیرو تھے۔ گورنر کے اس بیان کے ساتھ ہی ساری ریاست اور چیف منسٹر کی پارٹی ان کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگئی، حالانکہ چیف منسٹر اور ان کی پارٹی گورنر اور مرکزی حکومت سے دوستانہ تعلقات رکھتی ہے، اس کے باوجود گورنر کی بازطلبی کا مطالبہ کیا گیا۔
گورنر کے ناگوار ریمارکس
ایک گورنر ریاستی چیف منسٹر کے بارے میں جب یہ کہتے ہیں کہ اگر چیف منسٹر کو اس بات کا پتہ نہیں کہ ان کے دفتر کا کوئی شخص اپنے ایک رشتہ دار کا تقرر کرنے وائس چانسلر کو ہدایت دے رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا نااہل ہے۔ اگر وہ اس بارے میں جانتے ہیں تو وہ برابر کا ذمہ دار ہے۔ اس سے پہلے بھی اس گورنر نے کہا تھا کہ وہ چیف منسٹر کے ماضی کے سیاسی ریکارڈ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو گورنر ، چیف منسٹر کی مخالف کرنے والی پارٹی کا خیرمقدم کرتا ہے تو انہیں اس کا انعام دیا گیا ۔ دوسری جانب ایسے گورنر جنہوں نے دستوری قواعد و ضوابط کو اپنایا، انہیں باہر کا راستہ دکھایا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گورنر چیف منسٹروں کی طرح رویہ اختیار کرنے کے خواہاں کیوں ہوتے ہیں؟ ڈاکٹر سی رنگاراجن جو ایک ماہر اقتصادیات اور آر بی آئی کے سابق گورنر ہیں ، ایک ریاست کے گورنر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، انہیں اپنی تازہ ترین تصنیف Forks in the Road میں لکھنا پڑا کہ خالص سیاسی لحاظ سے مقرر کئے گئے گورنروں کو ان چیف منسٹروں سے نمٹنے میں مشکلات پیش آتی ہیں جو ان کی پارٹی کے نہیں ہوتے۔ بہرحال ایک حکومت کے خواہاں عناصر چاہتے ہیں کہ گورنروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں ۔