ڈاکٹر محمد عظمت اللہ خان احساسؔ

   

آہ! حضرت فاروقِ عصرؒ
ارض ِ دکن ہمیشہ سے ایک مردم سازاور مردم خیزخطہ رہا ہے ‘ یہاں کے علماء و صلحاء نے اپنی روحانیت اور خدادادصلاحیوں سے حقوق العباد کے باب میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اور سینہء تاریخ پر اپنی ہستی کے گہر ے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ ان نابغہء روزگار ہستیوں میںسے ایک فاروقِ عصرمولانا مفتی الحاج محمد فاروق علی نظامی قادری نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی بھی ہے۔ آپ کی ولادت ۲ جنوری ۱۹۴۲ء میں ہوئی‘آپ نے جامعہ نظامیہ سے کامل التفسیراور کامل الفقہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ کا شمار جامعہ نظامیہ کے جید علماء میںہوتا ہے ۔آ پ گوناگوں صلاحیتوں و صفات کے مالک تھے ۔ آپ کے اوصاف حمیدہ خصائل عالیہ کا ہر کوئی معترف تھا ‘ آپ کی ذات گرامی اسم ِبامسمی تھی حق گوئی و حکمت آپ کا طرئہ امتیاز تھا جس کا ثبوت آپ کے قول و فعل سے چھلکتا تھادین و دنیا کے تمام امور کی احسن انجام دہی اسی پیمانے پر انجام دیتے جو اکابرینِ اسلام کا خاصہ تھا۔ آپ عرصہ دراز تک بحیثیت مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ رہے آپ نے سیر کتب کے تحت کتابو ںکی موضوعاتی درجہ بندی اور کلاسیفکیشن جیسے اہم فنی کام کو انجام دیا ‘اس کے علاوہ آپ رکن مجلس اشاعت العلوم ‘ جامعہ نظامیہ کے ضمن کئی ایک وقت طلب دینی و علمی تصانیف کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ تصانیف کی تدوین و ترتیب سے لیکر طباعت کے مرحلے تک بھرپور توجہ فرماتے بطور خاص آپ کو شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاورقی ‘بانی جامعہ کی معرکتہ الآرا کتاب مقاصدالاسلام (حصہ ششم ‘بار دوم )کی تصحیح و تنقیح اورترتیب کا عظیم اعجاز حاصل ہوا ۔ آپ کا شمار نوریہ عربیہ کالج اور لطیفیہ عربک کالج ملحقہ جامعہ عثمانیہ کے نامور اساتذہ کرام (لیکچرر)میں ہوتا ہے ‘ کوئی بھی ادارہ یا جامعہ کی کارکردگی و فاعلیت میں مالی سرمایہ ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لہذا مولانا جامعہ نظامیہ کے استحکام کے لئے جامعہ نظامیہ اور بانی جامعہ کے مشن و مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے مالی سرمایہ کی فراہمی میں تا حیات کلیدی کردار نبھایا۔مولانا ‘ علماء کرام و بزرگانِ دین کی بے حد تعظیم کرتے تھے‘اپنے اساتذہ و اسلاف کی تعلیمات کا بیحد پاس و لحاظ رکھتے تھے‘ آپ کو حضرت پیر سید شاہ سلمان الگیلانی قادری بغدادی ؒسے بیعت حاصل تھی۔ اس صوفی باصفا اور عالم باعمل نے یکم جولائی ۲۰۲۰ء بروز چہار شنبہ قبل از مغرب بعمر ۷۸ برس داعی اجل کو لبیک کہا‘ تدفین احاطہ درگاہ شریف حضرت مکی میاں ؒ عمل میں آئی۔اس طرح علم و عمل کا یہ آفتاب دنیا کے آفتاب کے عین غروب ہونے سے قبل ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا مگراپنے پیچھے علم نافع وکار خیر کی ایسی روشنی چھوڑگیا ‘ جو ثواب جاریہ ہونے کے ساتھ ساتھ اوروں کے لئے مشعل راہ ہے۔