کارگل جنگ کے دوران فوج کے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں کا احتجاج

   

ہم احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے حق میںکچھ نہیں کہا جاتا، سرٹیفکیٹس جاری کرنا غیر فائدہ مند

جموں۔ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ہندوستانی فوج کے ساتھ کام کرنے والے پورٹروں (مزدوروں) نے اتوار کو یہاں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کے لئے احتجاج کیا۔ احتجاجیوں نے اپنے ہاتھوں میں ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر آل انڈیا پورٹر یونین کارگل وار 1999 لکھا تھا اور وہ ‘وی وانٹ جسٹس اور ساڈا حق ایتھے رکھ جیسے نعرے لگا رہے تھے ۔ رتن سنگھ نامی ایک احتجاج نے نامہ نگاروں کو بتایا جب 1999 میں کارگل جنگ شروع ہوئی تو انڈین آرمی ہمیں یہ کہتے ہوئے کارگل لے گئی کہ آپ لوگوں کو جنگ ختم ہونے کے بعد نوکریاں دی جائیں گی۔ انہوں نے کہاہم کارگل میں تین چار ماہ تک فوج کے ساتھ کام کرتے رہے ۔ ہم سرحد پر سامان لے جاتے تھے اور واپسی پر فوجیوں کی لاشیں لے آتے تھے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے مشکل گھڑی میں فوج کا ساتھ دیا۔ رتن سنگھ نے دعویٰ کیا کہ جنگ رکنے کے بعد ہمیں ایک سرٹیفکیٹ دی گئی جس میں لکھا ہے کہ ملازمت کے معاملے میں آپ کو سرکاری اور خانگی سیکٹرس میں ترجیح دی جائے گی۔ تاہم ان کے مطابق 22 سال ہو گئے لیکن محض چار یا پانچ پورٹروں کو ہی سرکاری نوکری ملی۔ ہم احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے حق میں کچھ نہیں کیا جاتا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھاکارگل جنگ کے دوران ہمارے تین چار پورٹر مارے گئے تھے ۔ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن جو اس دنیا میں ہیں وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بتا دیں کہ 1999 میں ہمالیائی پہاڑیوں میں لڑی جانے والی کارگل جنگ کے دوران دونوں ممالک کے سینکڑوں فوجی مارے گئے تھے جبکہ ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے تھے ۔ اس جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف عام شہریوں کا بھی کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔یاد رہے کہ کارگل جنگ 1999 ء میں ہوئی تھی جہاں پاکستان نے شاید ہندوستان کو کمزور سمجھتے ہوئے اور 1965 اور 1971 کی جنگوں سے سبق نہ لیتے ہوئے ایک بار پھر حملہ کردیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح پاکستان کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے سیاچین گلیشئر پر بھی تنازعات پائے جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً دونوں ممالک کے درمیان تلخ کلامیاں ہوتی رہتی ہیں۔ 1999 ء میں ہی اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے فوجی جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ رتن سنگھ نے مزید کہا کہ جب حکومت ہمیں کوئی فائدہ نہیں دینا چاہتی تو فوجی خدمات انجام دینے پر سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے کیا فائدہ؟ ہمیں ترجیحی طور پر ملازمتیں فراہم کرنے کی باتیں محض ’’خانہ پُری‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت ہر طرح سے ہمارا خیال رکھے لیکن جب سرٹیکفیٹ میں یہ درج کیا گیا ہے کہ ملازمتوں کے معاملہ میں ہمیں سرکاری اور خانگی سیکٹرس میں ترجیح دی جائے گی تو اس پر عمل آوری میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ 22 سال میں صرف چاریا پانچ افراد کو ملازمت ملنا بڑا ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے جبکہ حقیقی طور پر اس کی تعداد کم سے کم 250 تا 500 ہونی چاہئے تھی۔