کام نہیں ، بہبود نہیں ، صرف دولت چاہئے

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ وفینانس

چونکہ میرا تعلق سوشیل ازم کے مثالی خواب دیکھنے اور اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش کرنے والوں سے ہے، اس لئے میرا ہمیشہ یہی ایقان رہا ہے کہ ایک ترقی پسند، خوشحال اور ہمہ مذہبی و تہذیبی تنوع سے بھرپور ایک ملک کی تعمیر میں تین طاقتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انگریزی میں ہم اسے تین ڈبلیوز Work
(کام)،
Welfare
(بہبود) اور
Wealth (دولت) کہتے ہیں۔ یہ تینوں کسی بھی ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ ان تینوں عناصر کے بارے میں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی کسی سے کم یا زیادہ اہم نہیں ہے یعنی تمام کے تمام کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ اس کا تناظر مختلف ہوگا۔ پچھلے 30 برسوں میں ہم نے ڈرامائی اور مختلف اقتصادی تناظر یا خیالات کا مشاہدہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر 1991ء میں ہماری ملک کی معاشی حالت (تباہی کے قریب آچکی تھی)، 1997ء میں ہم نے اپنے ملک کی معیشت پر (عالمیانے) کے اثرات مرتب ہوتے دیکھے۔ سال 2002-03ء میں (قحط و خشک سالی کا نظارہ کیا) سال 2005-08ء (عالمی سطح پر اقتصادی حالت کو گرتے چڑھتے دیکھا) اور 2008ء میں تو عالمی سطح پر معیشت نہ صرف سست روی بلکہ انحطاط کا شکار ہوگئی۔ اس برس ہم سب نے (عالمی معاشی بحران دیکھا) سال 2012-13ء میں بھی (معاشی بحران) کا سامنا رہا۔ سال 2016-17ء میں (نوٹ بندی اور قحط نے اپنا اثر دکھایا) اور پھر سال 2020-22ء کے دوران ہم کو (کورونا وباء اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئے معاشی انحطاط) کے تلخ تجربات سے گذرنا پڑا۔ ہر خیال اور ہر پس منظر کو ایک مختلف احساس اور ایک مختلف ردعمل درکار ہوگا۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ حکومت نے بجٹ پیش کیا ہے۔ بہرحال حکومت اور اس کے ذمہ دار چاہے جو کچھ کرلیں لیکن کام ، بہبود اور دولت کے فروغ کا جو بنیادی فلسفہ ہے، اسے تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے۔
آخر کام کیوں؟
حضرت انسان یا آدم کی اولاد صرف ایک شکاری اور غذا جمع کرنے والا گروہ نہیں رہا کیونکہ اس کی (مرد ؍ عورت) خواہشات، اُمنگوں، ارمانوں اور ضروریات بڑھ گئی ہیں چنانچہ وہ (مرد و خواتین) نے کام کا کلچر اپنایا یعنی کام، محنت کو ترجیح دی۔ اس دور جدید میں کام، یا محنت انسان کی زندگی کا جز لاینفک ہے۔ ترقی پذیر معیشتوں میں جو اہم Indicator ہے، وہ 15 سال یا اس سے زائد عمر کے نوجوانوں کی آبادی ہے جو افرادی قوت تیار کرتی ہے۔ افرادی قوت میں LFPR آبادی کا متناسب ہوتا ہے جو سردست ملازمت کا حامل ہوتا ہے یا ملازمت کا خواہاں ہوتا ہے۔جہاں تک ہندوستان میں افرادی قوت کی تعداد کا سوال ہے، ان کی تعداد 44 کروڑ ہے۔ اسی طرح ایل ایف پی آر 37.5%، 52 کروڑ کے مساوی ہے (ذریعہ : ای ایس اپینڈکس)
آج ہندوستان کو انتہائی خطرناک اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔ ہندوستانی ایک نوجوان قوم ہے جہاں 28 تا 43 سال عمر کے حامل لوگوں کی اکثریت بیروزگار ہے۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اس وقت بھی اچھی طرح سمجھ گئے تھے، جب وہ عہدۂ وزارت پر فائز ہونے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان برسوں کے دوران مودی کا فلسفہ ایسا لگتا ہے کہ تبدیل ہوچکا ہے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ہر سال 2 کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے یا روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جس سے نوجوانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ بعد میں وہی مودی تھے جنہوں نے پکوڑے فروخت کرنے کو بھی ایک جاب یا روزگار قرار دیا تھا۔ دیکھا جائے تو پچھلے 7 برسوں کے دوران ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا۔ کورونا سے پھیلی وباء اور اس وباء کے پیش نظر بناء سوچے سمجھے اچانک نافذ کردہ لاک ڈاؤن نے بیروزگاروں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا۔ حالات اس قدر بھیانک رُخ اختیار کرگئے کہ ملک میں زائد از 60 لاکھ MSMES یعنی متوسط اور چھوٹے پیمانے کی صنعتیں بند ہوگئیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملازمتوں و روزگار سے محروم ہوگئے۔ ایسے لوگوں میں تنخواہ پانے والوں اور بے قاعدہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اگر ہم بیروزگاری کی موجودہ شرح کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ شرح شہری علاقوں میں 8% اور دیہی علاقوں میں 6% ہے۔ کورونا وباء سے نمٹنے میں جس بدنظمی یا بدانتظامی کا مظاہرہ کیا گیا، اس کے نتیجہ میں جو لوگ ملازمتوں یا کام پر واپس ہوئے، ان کی اُجرتوں میں کٹوتی کی گئی۔ گزشتہ دو برسوں میں ملک کے 84% گھرانوں کی آمدنی شدید متاثر ہوئی۔ انہیں آمدنی کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہونا پڑا۔ اسی پس منظر میں نئے بجٹ میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں 60 لاکھ ملازمتوں کی تخلیق کرے گی یعنی ہر سال ملازمتوں کے 12 لاکھ مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ آپ کو بتادوں کہ ملک کی افرادی قوت میں ہر سال جو لوگ شامل ہوئے ہیں، ان کی تعداد 47.5 لاکھ ہے (ذریعہ : لیبر بیورو) میرا ماننا ہے کہ آنے والے دنوں میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے نہیں بلکہ بیروزگاری میں خاص طور پر کم تعلیم یافتہ لوگوں میں بیروزگاری بڑھے گی۔
بہبود کیوں؟
بہبود ایک وسیع تصور یا نظریہ ہے جس میں کئی پہلو شامل ہیں جیسے زندگی یا گذر بسر، روزگار (جاب)، غذا، نگہداشت، صحت، تعلیم، سماجی سلامتی، تفریح و طبع وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک بہبودی اقدامات کا سوال ہے، اس کا مقصد ان چیلنجس سے نمٹنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر MGNREGA کا مقصد زندگی گزارنے کے چیلنج سے نمٹنا ہے۔ اسی طرح نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کا مقصد غذائی اشیاء کی قلت کے چیلنج سے نمٹنا ہے۔ صحت عامہ کی مفت سہولتوں اور صحت بیمہ کا مقصد نگہداشت صحت کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے، قانون حق تعلیم کا مقصد و ارادہ تعلیمی شعبہ کو درپیش چیلنجس سے نمٹنا ہے لیکن اس معاملے میں بجٹ میں کیا گیا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں۔ سال 2021-22ء کیلئے پٹرولیم اشیاء پر 6,517 کروڑ روپئے مختص کئے گئے یا سبسڈی دی گئی۔2022-23ء کیلئے اسے کم کرکے 5,813 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ کھاد کے معاملے میں 2021-22 میں 1,40,000 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن 2022-23ء میں اسے کم کرکے 1,05,000 کردیا گیا ہے۔ غذا کے معاملے میں 2021-22 میں 2,86,219 کروڑ روپئے مختص کئے گئے اور 2022-23ء میں اسے 2,06,481 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ مڈ ڈے میل اسکیم کیلئے 2021-22 11,500 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے جسے اب 10,233 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ فصل بیمہ کیلئے 15,989 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے، اب اسے 15,500 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ MGNREGA کیلئے 98,000 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن 2022-23ء کیلئے اسے کم کرکے 73,300 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ صحت کیلئے 85,915 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے، اس میں اب اضافہ کرکے اسے 86,606 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ جہاں تک دولت کا سوال ہے، یہ ترقیاتی کام کیلئے اور خاص طور پر غربت کے خاتمہ کیلئے بہت ضروری ہے۔