کانگریس کی جدوجہد کا نقطہ آغاز

   

اے ذوقِ طلب کس کے تصور میں چلے ہم
منزل کی تمنا نہ رہی ختمِ سفر تک
کانگریس کی جدوجہد کا نقطہ آغاز
کانگریس لیڈر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی جب جمعرات کو ہاتھرس عصمت ریزی و قتل کی متاثرہ لڑکی کے افراد خاندان سے ملاقات کیلئے جانا چاہتے تھے تو اترپردیش پولیس نے طاقت کے بل پر انہیں جانے سے روک دیا ۔ ان کے ساتھ دھکم پیل کی گئی اور اپنی بالادستی ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ کانگریس قائدین کا یہ احتجاجی مارچ اچانک ہی شروع ہوا تھا اور اس سے سبھی حلقوں کو حیرت بھی ہوئی ۔ ملک میں کورونا وباء کے آغاز ‘ لاک ڈاون اور پھر اب رعایتوں کے بعد سے کوئی سیاسی اور عوامی تحریک کے ملک میں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے تاہم راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جس طرح سے اچانک ہی ہاتھرس جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ساری توجہ حاصل کی اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کانگریس پارٹی نے مرکز کی نریندرمودی حکومت اور بی جے پی کے خلاف ایک طرح سے دوبارہ کمر کس لی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ مودی حکومت کو ایک بار پھر عوام کے بیچ گھسیٹتے ہوئے اس کی ناانصافیوں اور غلط پالیسیوں سے عوام کو واقف کروایا جائے ۔ ان میںشعور بیدار کیا جائے اور ملک کے زر خرید میڈیا کو بھی ایسے واقعات پر توجہ کرنے کیلئے مجبور کیا جائے ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ ملک کا زرخرید میڈیا اور بکاو اینکرس کس طرح سے ملک اور ملک کے عوام کو درپیش مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے بے معنی اور غیر اہم امور پر گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخ و پکار کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں ہندو ۔ مسلم کرنے سے فرصت نہیں ہے ۔ انہیں کسی کی کردار کشی کرنے سے زیادہ کسی اہم مسئلہ سے دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ عوام کو خواب غفلت میں رکھتے ہوئے حقیقی مسائل سے ان کی توجہ بھٹکانا چاہتے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں ایک ہی نظریہ اور سوچ کو داخل کرنے کی کوششوں میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی بیٹی اور لڑکی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی انتہاء بھی ہوجاتی ہے اور اس کی نعش کو تک وہ احترام نہیں ملتا جو اس کا حق ہے تب بھی یہ میڈیا اپنی بیمار ذہنیت اور بکاو سوچ کو ترک کرنے اور حقیقی مسائل کو پیش کرنے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی سمت راغب ہونے کو تیار نہیں ہے ۔
گذشتہ چند مہینوں سے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس ملک میں کوئی اپوزیشن بھی باقی ہے یا نہیں۔ خود کانگریس پارٹی میں اس تعلق سے سوال ہونے لگے تھے ۔ پارٹی قیادت کے وجود پر بھی تبصرے کئے جا رہے تھے ۔ عوام کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیدا ہونے لگا تھا کہ آیا اس ملک میں حکومت سے سوال پوچھنے والا اور حکومت کی غلط کاریوں پر اظہار خیال کرنے والا کوئی طبقہ یا گوشہ باقی رہا بھی ہے یا نہیں۔ کانگریس پارٹی کی حالت انتہائی دگرگوں ہونے لگی تھی ۔ پارٹی کے داخلی حالات اور عوام میں اس کے امیج اور اہمیت کے تعلق سے بھی کوئی اچھی رائے نہیں بن پا رہی تھی ۔ ان حالات میں راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جس طرح سے سڑک پر اترتے ہوئے ایک مسئلہ پر حکومت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے وہ کانگریس پارٹی کی جانب سے حکومت کے خلاف اور بی جے پی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور ایک طویل و صبر آزما اور منظم جدوجہد کرنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتی ہے ۔ صرف کسی ایک مسئلہ پر یا کسی ایک موقع پر اس طرح کی جدوجہد کانگریس پارٹی میں نئی جان ڈالنے کیلئے کافی نہیں ہوسکتی ۔ اس کیلئے بلند عزائم اور حوصلوں کے ساتھ طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کرنا ہوگا ۔ اس کیلئے حقائق کو پیش کرنے کا ْجذبہ بھی درکار ہوگا تاکہ عوام کو ان سے واقف کروایا جاسکے ۔ اس کیلئے پارٹی کیڈر کو بھی قیادت کے عزائم و مقاصد اور منصوبوں سے واقف کروانے کی ضرورت ہوگی ۔
ہندوستان بھر میں آج جو سیاسی جماعتیں ہیں ایک طرح سے انہیں اپنے وجود کی لڑائی درپیش ہے ۔ کئی جماعتیں مودی حکومت اور بی جے پی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے گریزاں ہیں یا خوفزدہ ہیں۔ انہیں سی بی آئی کا خوف لاحق ہوگیا ہے جو مودی حکومت کا سب سے بڑا ہتھیار بنتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں اگر کانگریس پارٹی بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کرپائے اور وہ بھی عوام کو جھنجھوڑنے اور ان میں شعور بیدار کرنے کیلئے آگے نہ آئے تو پھر دوسری جماعتوں میں یہ خوف کا ماحول مزید گہرا ہوسکتا ہے ۔ اب جبکہ کانگریس نے ہاتھرس سے احتجاج کا آغاز کیا ہے تو یہ ایک طویل جدوجہد کا نقطہ آغاز ہونا چاہئے اور ایک جامع و مبسوط حکمت عملی کے ساتھ حکومت کو چیلنج دینا کانگریس کی ذمہ داری بنتی ہے ۔