کبھی تجھ کو بھی بلندی سے اترنا ہوگا

,

   

کرناٹک چناؤ … راہول بمقابلہ مودی
راہول کی سزا … بی جے پی کے گلے کی ہڈی

رشیدالدین
کرناٹک اسمبلی انتخابات کا بگل بجتے ہی بی جے پی قائدین کی دل کی دھڑکن تیز ہوچکی ہے۔ بی جے پی کو اگرچہ الیکشن کا بے چینی سے انتظار تھا لیکن راہول فیکٹر نے بی جے پی کی قیادت اور خاص طور پر مودی۔امیت شاہ جوڑی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ وہ اس لئے کہ کرناٹک چناؤ بی جے پی کے لئے کیک واک نہیں بلکہ ایسڈ ٹسٹ بن چکا ہے۔ الیکشن سے عین قبل لوک سبھا کی رکنیت ختم کرتے ہوئے راہول گاندھی کو زخمی شیر بنادیا گیا جس کا خمیازہ مودی اینڈ کمپنی کو بھگتنا پڑے گا۔ کرناٹک میں کانگریس کے پاس بی جے پی حکومت کو شکست دینے کیلئے درکار سیاسی موضوعات ہتھیار کی شکل میں نہیں تھے لیکن راہول گاندھی کو لوک سبھا سے باہر کرنے کے بعد سرکاری قیامگاہ سے بیدخلی کی نوٹس نے عوامی ہمدردی کی لہر پیدا کردی ہے۔ مبصرین کے مطابق کوئی عجب نہیں کہ ہمدردی کی سواری کے ذریعہ کانگریس کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گی۔ کرناٹک میں کانگریس ۔ جے ڈی ایس حکومت کو غیر مستحکم کرتے ہوئے اور ارکان کی خریدی کے ذریعہ بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ جو اقتدار اپنے دم پر نہ ہو اور دھوکہ سے حاصل کیا گیا ہو ، وہ پائیدار نہیں ہوسکتا۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کی سرپرستی اور مدد سے 8 سے زائد غیر بی جے پی حکومتوں کو زوال سے دوچار کیا گیا۔ بی جے پی کرناٹک کے ذریعہ جنوبی ریاستوں میں اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ یدی یورپا کے بعد بومائی نے عنان حکومت سنبھالا اور پرامن اور فسادات سے پاک ریاست کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔ مذہبی بنیادوں پر نفرت کے ذریعہ سماج کو توڑنے طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے لیکن الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘‘ کے مصداق صورتحال یکایک تبدیل ہوگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سورت کی عدالت نے جس تقریر کی بنیاد پر راہول گاندھی کو سزا سنائی ، وہ تقریر کرناٹک میں کی گئی تھی۔ جس ریاست سے تنازعہ اٹھا اور اختتام لوک سبھا کی رکنیت سے محرومی کے ذریعہ ہوا ، وہاں الیکشن میں یہی مسئلہ چھایا رہے گا۔ کانگریس پارٹی بھی سیاسی فائدہ کا کوئی موقع گنوائے بغیر اسی مقام سے انتخابی مہم کے آغاز کا فیصلہ کرچکی ہے جہاں 13 اپریل 2019 ء کو ریالی سے خطاب کے بعد راہول گاندھی کے خلاف توہین کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ راہول گاندھی 5 اپریل کو ’’سچائی کی جیت‘‘ کے عنوان سے کولار میں ریالی سے خطاب کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جس مقام پر خطاب سے دو سال قید کی سزا ملی ، اسی مقام پر راہول کی دوبارہ آمد سے الیکشن کی تمام تر توجہ راہول گاندھی پر مرکوز رہے گی۔ کرناٹک میں سہ رخی مقابلہ کا امکان تھا لیکن تبدیل شدہ حالات میں کانگریس اور بی جے پی میں راست اور کانٹے کی ٹکر ہوگی۔ اوپنین پول میں کانگریس کا پلڑا بھاری ہونے کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ جنتا دل سیکولر ساری ریاست میں اثر انداز ہونے کے موقف میں نہیں ہے۔ بی جے پی نے لو جہاد ، اذان ، ٹیپو سلطان اور مساجد و عیدگاہوں کے مندر ہونے کی مہم جیسے موضوعات کے ذریعہ مسلمانوں کو خوفزدہ اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ الیکشن سے عین قبل تعلیم اور روزگار میں مسلمانوں کو حاصل 4 فیصد تحفظات ختم کردیئے گئے ۔ اقلیتوں اور سیکولر ذہنیت رکھنے والے افراد کی رائے ہے کہ صرف کانگریس ہی بی جے پی مقابلہ کرسکتی ہے۔ بی جے پی کو راہول گاندھی کے خلاف کارروائی کے سیاسی نقصان کا اندازہ نہیں تھا ، ورنہ الیکشن کمیشن کو انتخابی تاریخوں کے اعلان سے روک دیا جاتا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے اور کسی بھی حالات میں مقابلہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ مودی ۔امیت شاہ جوڑی نے تقر یباً ایک سال سے کرناٹک پر توجہ مرکوز کی ہے لیکن اس مرتبہ ان کی جملہ بازی ، لفاظی اور اپوزیشن کے خلاف رکیک حملے عوام کو متاثر نہیں کرپائیں گے۔ کرناٹک کا چناؤ ملک کی سیاست میں اہم تبدیلی کا پیش خیمہ اور بی جے پی کے زوال کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے ۔ راہول بمقابلہ نریندر مودی الیکشن پر ملک بھر کی نظریں ہیں۔
قدرت جب کسی کے زوال کا فیصلہ کرے تو سب سے پہلے اس کی عقل ، فہم و فراست اور تدبر کو زوال آتا ہے۔ گزشتہ 8 برسوں کے اقتدار میں بی جے پی غرور و تکبر انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ اور مقابل میں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کانگریس کی کمزوری کا بی جے پی نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکز میں دو مرتبہ اقتدار پر قبضہ جمایا ۔ راہول گاندھی کو پپو اور امول بے بی کہا گیا لیکن جس کی رگوں میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کا خون ہو وہ کبھی نہ کبھی اپنی سیاسی وراثت کا مظاہرہ تو ضرور کرے گا ۔ کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا نے راہول گاندھی کے سیاسی سفر میں اہم رول ادا کیا ہے۔ سیاسی مبصرین یاترا کو اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔ مودی حکومت اور بی جے پی اس صدمہ سے ابھر نہیں پائی تھیں کہ اڈانی کمپنی کی دھاندلیوں نے مودی کی رسوائی کا سامان کیا۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد دنیا بھر میں ہندوستان کا وقار مجروح ہوا ہے ۔ گجرات فسادات پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری بی جے پی کو ہضم ہونے والی کہاں تھی۔ بی بی سی کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی ۔ اڈانی کو بچانے کیلئے نریندر مودی نے عوامی شعبہ کے اداروں کو داؤ پر لگادیا۔ ایل آئی سی اور ایس بی آئی سے بھاری رقومات کی اڈانی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ اب تو وظیفہ یابوں کی پرویڈنٹ فنڈ کی رقم بھی اڈانی کی جھولی میں ڈالنے کی تیاری میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اڈانی آخر کون ہیں جس کو بچانے کیلئے مودی اور ان کی حکومت کے ساتھ بی جے پی سرگرم ہوچکی ہے۔ راہول گاندھی نے لوک سبھا میں مودی ۔ اڈانی رشتوں پر سوال کیا تو سورت کی عدالت کو متحرک کیا گیا۔ بی جے پی کو یقین تھا کہ سزا اور رکنیت کی برخواستگی سے کانگریس کمزور ہوجائے گی۔ اور عدالت سے حکم التواء کے ذریعہ راہول کے حق میں ہمدردی کی لہر کو روکا جاسکے گا۔ راہول گاندھی نے عدالت کے بجائے عوام کے درمیان جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بساط الٹ دی اور بی جے پی کی دھڑکن ہر سکنڈ کے ساتھ تیز ہورہی ہے۔ لوک سبھا کی رکنیت کی برخواستگی کی سزا بی جے پی کی گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی قائدین خود راہول گاندھی کو عدالت سے رجوع ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں راہول گاندھی کو عدالت سے رجوع ہونے کا مشورہ کچھ اس طرح دیا جیسے وہ راہول گاندھی کے قانونی مشیر ہوں۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ راہول گاندھی عدالت سے رجوع ہوکر حکم التواء حاصل کرلیں تاکہ سزا کے نام پر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا سلسلہ ختم ہو۔ لوک سبھا کی رکنیت ختم ہوتے ہی راہول گاندھی کو سرکاری گھر سے بے گھر کرنے نوٹس دی گئی۔ نئی دہلی میں ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، سبرامنیم سوامی اور غلام نبی آزاد سرکاری مکانات میں مقیم ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے۔ سیکوریٹی اور دیگر وجوہات کا بہانہ بناکر اپنے قریبی افراد کو سرکاری بنگلہ الاٹ کیا گیا ۔ جہاں تک سیکوریٹی کا معاملہ ہے کہ راہول گاندھی سے بڑھ کر کسی اور کو سیکورٹی کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے خاندان میں والد اور دادی دہشت گرد کارروائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بی جے پی کو راہول گاندھی کو بیدخل کرنے کی ایسی کیا جلدی تھی۔ دراصل انتقامی جذبہ کے تحت عجلت میں کی گئی کارروائیاں خود بی جے پی کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ اسی دوران لوک سبھا کو لکشادیپ کے محمد فیضال کی رکنیت کو بحال کرنا پڑا۔ اقدام قتل کے معاملہ میں مقامی عدالت نے انہیں سزا سنائی تھی جس کے بعد پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کردی گئی ۔ ہائی کورٹ نے دو ماہ قبل سزا پر حکم التواء جا ری کردیا لیکن لوک سبھا سکریٹریٹ نے رکنیت بحال کرنے کی کارروائی نہیں کی۔اس مسئلہ کو جب سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو سماعت سے عین قبل محمد فیضال کی رکنیت کو بحال کرتے ہوئے احکامات جاری کئے گئے ۔ دراصل مسلم رکن پارلیمنٹ ہونے کے سبب بی جے پی حکومت کو بادل ناخواستہ بحالی کا فیصلہ کرنا پڑا ورنہ سپریم کورٹ سے پھٹکار مل سکتی تھی۔ دو ماہ تک لوک سبھا سکریٹریٹ نے ٹال مٹول سے کام کیا۔ اعظم خاں اور ان کے فرزند کو بھی نااہل قرار دیا جاچکا ہے۔ الغرض راہول گاندھی جس دن بھی عدالت سے رجوع ہوں گے انہیں راحت ضرور ملے گی لیکن وہ بی جے پی سے مقابلہ کیلئے سیاسی حکمت کے طور پر عدالت سے رجوع ہونے میں تاخیر کرسکتے ہیں۔ معراج فیض آبادی نے کیا خو ب کہا ہے ؎
پستیوں کا ہمیں احساس دلانے والے
کبھی تجھ کو بھی بلندی سے اترنا ہوگا