کرم کی آنکھ نہیں دیکھتی لباسوں کو

   

مولانا حبیب عبدالرحمن بن حامد الحامد

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا عمل ماہ شعبان المقدس میں یہ ہوا کرتا کہ آپ مسلسل روزے رکھا کرتے ۔ حضرت بی بی عائشہ صدیقہؓ اور بی بی ام سلمیٰ کی روایتیں ہیں کہ ہم سمجھتے کہ اب حضور روزے نہیں چھوڑیں گے ۔ مگر آپ اس کو ختم کردیتے ۔ اس ماہ مبارک میں زیادہ روزے رکھنے پر بی بی محترمہ عائشہ صدیقہؓ نے سوال کیا : ’’اے اﷲ کے رسول ! آپ اس قدر زیادہ روزے کیوں رکھتے ہیں ؟ ‘‘۔
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ’’کیا میں اﷲ کا مقرب بندہ نہ بنوں ‘‘۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں بندوں کے اعمال اﷲ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ، اور میں چاہتا ہوں کہ جس دن میرا نامۂِ اعمال اﷲ کے حضور پیش کیا جائے میں روزے سے رہوں‘‘۔ یعنی رمضان المبارک کے فرض روزوں کے بعد حضورؐ سب سے زیادہ روزے ماہ شعبان المعظم میں رکھتے تھے ۔
یہ وہ ماہِ مبارک ہے جس میں اﷲ تعالیٰ قضا و قدر کے فیصلے فرماتا ہے۔ بندۂ مومن تین مرتبہ یٰسں پڑھ کر دعائیں کرتا ہے جسے دعاء شعبانی کہتے ہیں ۔ اس میں وہ بارگاہ رب العزت میں یہی التجا کرتا ہے کہ اے اﷲ اپنے پاس ام الکتاب میں مجھے بھٹکا ہوا ، لکھ دیا ہو تو اے میرے پروردگار اپنی رحمت کاملہ سے اس کو دور فرما ۔ مجھے محروم نہ رکھ ۔
یہ رات جسے ہم شب برأت کہتے ہیں ۔ دراصل دعاؤں کی رات ہے ۔ اپنے مولیٰ کو منانے کی رات ہے ۔ اس میں جتنی عبادت خشوع و خضوع سے کرسکتے ہوں کریں اور رمضان المبارک کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرلیں۔
براء ت کے معنی چھٹکارا ، یعنی اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانا ہے ۔ جانے انجانے میں بندۂ مومن سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو توبہ کرے ، توبہ کے معنی پلٹنے کے ہیں۔ اس بات کا اقرار کرنا کہ آئندہ پھر یہ کام جو مجھ سے سرزد ہوا نہیں ہوگا ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اسے معاف فرمادیتے ہیں ۔ لیکن کچھ ایسے بھی بندے ہیں جو گناہوں میں بہت زیادہ ملوث ہوجاتے ہیں جیسے جادوگر ، کاہن ، شرابی ، مشرک ، ماں باپ کا نافرمان ، رشتوں کو توڑنے والا ، جواری ، زانی ، ان سب کی دعا اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ سچے دل سے توبہ نہ کرلیں۔ سچے دل سے توبہ کرلیں تو اس کی رحمت سے اُمید ہے کہ اگر گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں یا ریت کے ذروں کے برابر ہوں اﷲ معاف فرما دے گا ۔ اﷲ کی بارگاہ میں گڑگڑاکر بندہ دعا کرتا ہے تو اﷲ کو اس کا گڑگڑانا پسند آجاتا ہے ۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کسی بندۂ مومن کی دعا اﷲ رد نہیں کرتا ، اس کو قبول کرتے ہوئے اس کا اجر دیدیتا ہے یا روز قیامت کیلئے محفوظ کردیتا ہے ۔ بندۂ مومن اپنی ان دعاؤں کو جو دنیا میں کیا لیکن قبول نہیں ہوئیں اور آج اس کا اجر و ثواب مل رہا ہے تو تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی !۔
دعاؤں کی قبولیت کا وقت بھی بتلایا گیا کہ موسم برسات کی پہلی بارش ہورہی ہو ، بندہ مومن دعا کرے تو اﷲ اس کو قبولیت بخشتا ہے۔ یوم جمعہ ، نماز جمعہ تا نماز مغرب بندے کی ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ رات کے آخری پہر جب آپ تہجد کیلئے اُٹھیں تو اﷲ آپ کی دعا قبول کرتا ہے ۔
اﷲ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے : باپ کی دعا اولاد کیلئے کی جائے تو اﷲ اس کی دعا قبول کرتا ہے ، اسی طرح جس طرح نبی کی دعا اُمت کیلئے قبول فرماتا ہے ۔ خوش نصیب ہے وہ اولاد جن کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو ، ان کی خدمت کرے اور جنت کا حقدار بن جائے ۔ باپ جنت کا صدر دروازہ ہے ۔ جس نے باپ کو راضی کیا ، وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں جاسکتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اگر کوئی بیٹا اپنی ماں پر ایک ہنستی ہوئی نگاہ ڈالے تو ایک حج کا ثواب ملے گا ۔ صحابہ نے پوچھا اے اﷲ کے رسول اگر پانچ مرتبہ ہنستی ہوئی نگاہ ڈالے ؟ تو حضور نے فرمایا ’’پانچ حج کا ثواب پائیگا‘‘ ۔ پھر صحابہ کرام نے دریافت کیا اگر کوئی پچاس مرتبہ ڈالے تو فرمایا کہ پچاس حج کا ثواب ملے گا ۔ اﷲ کے پاس حسنات کے دینے میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک چڑیا سمندر سے اڑتے ہوئے اگر سمندر سے اپنی چونج میں کچھ پانی لے لے تو سمندر میں کمی نہیں ہوتی ۔ اسی طرح حسنات کے دینے میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ اس لئے ہمارا کام ہے کہ اس رات اﷲ کو راضی کرلیں تو دین اور دنیا کی نعمتوں سے اﷲ تبارک و تعالیٰ سرفراز کردے گا ۔ یہ رات بارگاہ رب العزت میں دعائیں کرنے کی رات ہے اور اﷲ کی ذات سے کامل اُمید رکھتے ہوئے سچے دل سے توبہ کے ساتھ دعائیں کریں ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ اُس شخص کی دعائیں قبول نہیں کرتا جس کے پیٹ میں حرام روزی ہو یا اُس کے جسم پر حرام کپڑا ہو یا اگر وہ بے نمازی ہو تو اس کی دعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہ جاتی ہے ۔ بقول علامہ اقبال ؔ
وہ تو مائل بہ کرم ہے کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہ رو منزل ہی نہیں
اور حضرت خواجہ شوقؔ نے کہا :
کرم کی آنکھ نہیں دیکھتی لباسوں کو
خلوص نیت سائل تلاش کرتی ہے
میں سائل ہوں مگر اے شوقؔ اُن کے در کا سائل ہوں
کرم جن کا کبھی شرمندۂ سائل نہیں ہوتا