کرناٹک میں بی جے پی کا پھر سے پرانا کھیل

   

رام چندر گوہا
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کا مئی2023 میں انعقاد عمل میں آیا، انتخابات سے کئی ماہ پہلے مقامی اخبارات میں چار عنوانات یا موضوعات پر سُرخیاں چھائی رہیں۔ پہلی سُرخی تعلیم حاصل کرنے والی مسلم لڑکیوں یا طالبات کی جانب سے ہیڈ اسکارف کے کئے جانے والے اہتمام سے متعلق ہوا کرتی تھی۔ دوسری سُرخی یا سُرخیاں جانوروں کے طریقہ ذبیحہ کے بارے میں ہوتی تھیں ( یعنی حرام اور حلال ذبیحہ ) اس سلسلہ میں آپ کو بتادیں کہ مسلمان بڑے جانور یا بکرے، دنبہ کا جو گوشت استعمال کرتے ہیں وہ ان جانوروں کے حلال ذبیحہ کو یقینی بناتے ہیں یعنی جس جانور کو ذبح کیا جانے والا ہوتا ہے اسے سب سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے، اس کا سَر زمین پر ایسے انداز میں رکھا جاتا ہے جس سے وہ ذبح کرنے والے کے ہاتھ میں موجود چھری کو دیکھ نہ سکے اور پھر بڑی احتیاط کے ساتھ گلے پر چھری چلائی جاتی ہے جس کے ساتھ ہی جانور کے جسم سے سارا خون نکل جاتا ہے، اس کے برعکس جانور کو بڑی بے دردی کے ساتھ ایک ہی وار میں ایک ہی جھٹکہ میں ذبح کردیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں جانور کے جسم میں ہی خون منجمد ہوجاتا ہے جو سائینسی اور طبی لحاظ سے انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ مسلمان حلال گوشت کو ہی ترجیح دیتے ہیں جو اول الذکر طریقہ سے ذبح کیا جاتا ہے۔ تیسری سُرخی؍ سُرخیوں کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ کبھی کبھار منظرِ عام پر آتی رہی جو بالغ مسلم مرد اور بالغ ہندو لڑکی کے بارے میں ہوتی جو ایک دوسرے کے پیار میں گرفتار ہوتے اور شادی کرنے کی خواہش رکھتے۔ چوتھی سُرخی تاریخ میں اس افسانوی بادشاہ کے تعلق سے ہوتی جس نے کبھی ملک کے اس حصہ پر حکمرانی کی جو ریاست کرناٹک کی شکل میں موجود ہے اور 200 سال قبل انگریز سامراج سے لڑتے ہوئے اپنی جان گنوا دی تھی۔ بہر حال حجاب، حلال، لو جہاد اور ٹیپو سلطان اُس وقت کرناٹک کے رائے دہندوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے عنوانات، موضوعات اور مسائل کے طور پر اپنائے گئے جس کا صرف اور صرف یہی مقصد تھا کہ مذہب کے نام پر رائے دہندوں کو تقسیم کیا جائے، چاہے اس کے لئے جھوٹ کا سہارا ہی کیوں نہ لیا جائے۔
مذکورہ عنوانات کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی گئی جیسے یہی چار مسئلے عوام کے سلگتے مسائل ہیں ان کی وجہ سے ان کی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں جبکہ عوام کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہے، اشیائے ضروریہ سے لیکر ہر شعبہ میں مہنگائی کے سنگین مسئلہ نے انہیں پریشان کرر کھا ہے۔ آب و ہوا کے مسئلہ کا سامنا ہے، شہریوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو اس وقت 60 ملین آبادی کو درپیش ہیں جہاں میں خود مقیم ہوں۔ اَب یقینا یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتا ہوگا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ پوری طرح سیاسی ہے۔ بی جے پی کی جب حکومت تھی عوام میں اس کی زیادہ مقبولیت نہیں تھی ( وہ ریاست میں کس طرح اقتدار میں آئی‘ عوام اور سیاسی قائدین اس بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں ) خاص طور پر بی جے پی حکومت کے چیف منسٹر غیر موثر ثابت ہوئے، ان کی حکومت کے خلاف عوام میں ایک مضبوط لہر پائی جاتی تھی لیکن وہ اس عوامی موڈ کو اچھی طرح سمجھ نہیں پائے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ دہلی میں بیٹھی پارٹی قیادت نے کرناٹک اسمبلی انتخابات کو پوری طرح ہندو بمقابلہ مسلم مسئلہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اُن انتخابات کو حجاب، حلال اور بین مذاہب شادی جیسے مسائل کے ذریعہ ہندو ۔ مسلم انتخابات بنائے۔ بی جے پی نے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے ہندوستانیوں سے مختلف الگ تھلگ اور ناقابلِ بھروسہ کے طور پر پیش کرنا چاہا اور اُس نے یہ سب کچھ اس اُمید سے کیا کہ اکثریتی ہندو آبادی پوری طرح ان کی تائید و حمایت کرے گی اور وہ لاکھ خامیوں و ناکامیوں کے باوجود اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس مقصد کو لیکر بی جے پی نے انتخابی مہم چلائی اور پارٹی کی واٹس ایپ فیکٹری نے کئی جھوٹ کی تخلیق کی اور اس میں سب سے بڑا جھوٹ بلکہ بڑا دعویٰ یہ تھا کہ وہ دو وکالپگا جنگجو تھے جنہوں نے ٹیپو سلطان کو شہید کیا۔
بی جے پی کی واٹس ایپ فیکٹری کی دروغ گوئی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے یہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا کہ ٹیپو سلطان کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے شہید کیا( ویسے بھی بی جے پی اور اسی قبیل کی دوسری تنظیمیں ٹیپو سلطان سے بغض رکھتی ہیں اور وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہیں کہ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کا بڑی شجاعت و بہادری سے مقابلہ کیا تھا اور کئی جنگوں میں انگریزوں کو شرمناک شکست سے دوچار کرکے ان پر اپنی ہیبت طاری کردی تھی ) بہر حال بی جے پی نے مسلم مخالف ایجنڈہ کو بڑی شدت سے آگے بڑھایا، اسے اُمید تھی کہ ہندو ان کے جھانسے میں آجائیں گے اور بیوقوف بن جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اکثریت نے بی جے پی کی چال بازیوں اور مکاریوں کو اچھی طرح سمجھ لیا اور پھر ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کی کامیابی کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ یہ کہ کانگریس نے ہندی پٹی کی ریاستوں کے برعکس کرناٹک میں خود کو عوام سے جوڑے رکھا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ریاست کے دوبڑے کانگریسی قائدین سدا رامیا اور ڈی کے شیو کمار متحد رہے، ان لوگوں نے اس طرح کا کام نہیں کیا جس طرح راجھستان اور چھتیس گڑھ کے اہم قائدین نے ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے ذریعہ کیا۔ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کے اہم قائدین بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے جس کا راست نقصان کانگریس کو ہوا۔ دوسری کئی ریاستوں کے کانگریسی قائدین کا یہی حال ہے، انہیں بی جے پی سے مقابلہ کی فکر نہیں بلکہ ایک دوسرے کا گریباں پکڑنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گذشتہ نومبر کو کرناٹک میں کانگریس حکومت نے چیف منسٹر سدا رامیا اور ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیو کمار کے ساتھ اپنے اقتدار کے 6 ماہ مکمل کئے، اس مدت میں اخبارات اور ٹی وی چیانلوں کی سُرخیاں حجاب، حلال، ٹیپو سلطان اور مسلمان سے ہٹ کر عوام کو درپیش اہم مسائل پر مرکوز ہونے لگی ہیں۔ خاص طور پر خراب مانسون کے غریب کسانوں پر اثرات، بنگلورو میں سڑکوں کی خراب حالت، ابتر پبلک ٹرانسپورٹ اور وزراء کی ہدایات پر اعلیٰ عہدہ داروں کے تبادلے اور ان تبادلہ جات میں رشوت وغیرہ پر سُرخیاں منظرِ عام پر آنے لگیں۔ میں نے اس مثبت تبدیلی کو خاص طور پر نوٹ کیا کیونکہ انتخابات سے قبل کرناٹک میں میڈیا نے شائد دباؤ کے باعث ہندو۔مسلم پر زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ ہوسکتا تھا کہ میڈیا پر اُسوقت برسرِ اقتدار رہی پارٹی کا راست یا بالواسطہ دباؤ رہا ہو۔اَب میڈیا ایسا لگتا ہے کہ کسی کے حکم کا محتاج نہیں رہا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2023 کے پچھلے ہفتوں میں اخبارات کی رپورٹس میں آئی مثبت تبدیلی پر میں نے اپنے چند دوستوں سے ذکر بھی کیا اور ان لوگوں نے میری رائے اور تجزیہ سے اتفاق بھی کیا ( ان لوگوں نے میرے جذبات و احساسات سے بھی اتفاق کیا ) لیکن میں نے جو راحت کی سانس لی وہ عارضی ثابت ہوئی کیونکہ مذہب کا سوال پھر سے سُرخیوں میں آنے لگا ہے۔ آئندہ دو ڈھائی ماہ میں لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہیں اور کرناٹک میں لوک سبھا کی 28 نشستیں ہیں جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بی جے پی کے ریاستی یونٹ نے ہندو ووٹ بنک کو مضبوط و مستحکم بنانے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کی ہے اور وہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ اکثریتی ووٹ ان کی جھولی میں آئیں گے۔ اپنے ایجنڈہ کو شدت سے آگے بڑھانے کیلئے بی جے پی نے ریاست کے ضلع مانڈیا کے ایک کھمبے کو یہ کہتے ہوئے تنازعہ کی وجہ بنادیا کہ اس پر کونسا پرچم اور جھنڈا لہرایا جانا چاہیئے۔ ہندوتوا کے کارکنوں کا اصرار ہے کہ چونکہ یہ کھمبا قدیم ہنومان مندر سے قریب ہے اس لئے ایک زعفرانی جھنڈا اس پر لہرایا جانا چاہیئے۔ ریاستی انتظامیہ کا ایقان ہے کہ یہ کھمبا سرکاری اراضی پر نصب کیا گیا ہے اس لئے اس پر صرف قومی پرچم ہی لہرایا جاسکتا ہے جس کے ساتھ سُرخ و زعفرانی رنگ پر مشتمل کرناٹک کا پرچم بھی ہو۔ اگرچہ یہ ایک مقامی سطح کا معمولی مسئلہ ہے لیکن بی جے پی نے اسے ایک بہت بڑا مسئلہ بنادیا ہے۔ کرناٹک اسمبلی میں قائد اپوزیشن آر اشوک فوری اس گاؤں پہنچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس حکومت نے کھمبے پر زعفرانی پرچم لہرانے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے جو دراصل ہندوؤں کی توہین ہے۔
حکومت کے خلاف بی جے پی نے ایک بڑی ریالی نکالی جس میں آر اشوک جے ڈی ( ایس ) لیڈر ایچ ڈی کمارا سوامی کے شانہ بہ شانہ ٹہرے رہے۔کمارا سوامی کرناٹک میں اسی طرح شخصی مفادات کی تکمیل کے خواہاں ہیں جس طرح بہار میں نتیش کمار نے پالیسی اپنائی۔ نتیش کمار کی طرح ہی ایچ ڈی کمارا سوامی نے بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زعفرانی شال اپنے گلے میں ڈال رکھی۔ اگرچہ کہ ان کی پارٹی کے ساتھ جو “S” لگا ہوا ہے وہ تکنیکی طور پر سیکولر کی نمائندگی کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی ریاست کے مختلف مقامات پر زعفرانی پرچم لہرانے کا منصوبہ بنارہی ہے جس میں حساس ساحلی علاقے بھی شامل ہیں۔ ’ دکن ہیرالڈ ‘میں 2 فروری کو ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بی جے پی لیڈر سی ٹی روی نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع بیدر میں جو مسلم صوفی کی درگاہ ہے دراصل وہ 12 ویں صدی کے ہندو مصلح بسوننا کا تنصیب کردہMANTAPPA ہے۔ انہوں نے مجوزہ لوک سبھا انتخابات کاشی وشواناتھ اور اورنگ زیب، سومناتھ اور غزنوی، ہنومان اور ٹیپو سلطان کے درمیان ہے۔