کرناٹک میں کمزور بی جے پی کو شکست دینا کانگریس کیلئے ضروری

   

پروفیسر پوگیندر یادو
کرناٹک قانون ساز اسمبلی کے 10 مئی کو انتخابات ہوں گے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ کوئی رسمی انتخابی کارروائی نہیں ہے بلکہ یہ انتخابات، انتخابات نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر حکمراں بی جے پی کے لئے کرناٹک اسمبلی انتخابات وقار کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ اس مرتبہ انتخابات میں کامیابی بی جے پی کے لئے کوئی آسان نہیں ہیں کیونکہ اس کے درجنوں اہم قائدین نے انحراف کرتے ہوئے اقتدار کی سب سے بڑی دعویدار کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ انتخابات صرف اس لئے اہمیت نہیں رکھتے کہ آئندہ 5 برسوں کے دوران ریاست میں کوئی حکومت کرے گا یا کس کی حکمرانی ہوگی؟ ان انتخابات کی اہمیت صرف کرناٹک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ 2024 کے عام انتخابات میں بھی کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے جہاں تک کرناٹک کا سوال ہے اکثر تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ انتخابات لوک سبھا انتخابات کا ایک طرح سے سیمی فائنل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک اوسط حجم کی حامل جنوبی ہند کی یہ ریاست لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا تعین نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس ریاست کے نتائج شمال اور مغربی ہندوستان میں عوام کے موڈ کا پتہ دیتے ہیں۔ شمالی اور مغربی ریاستوں سے بی جے پی نے بیشتر لوک سبھا نشستیں جیتی ہیں اگر دیکھا جائے تو جاریہ سال ڈسمبر میں ہونے والے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں کیا ہوگا، وہاں کے نتائج کیا آئیں گے؟ یہ اہم ترین سوال ہے اس کا اثر کرناٹک سے کہیں زیادہ پارلیمانی انتخابات پر پڑے گا۔ ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ایسے وقت ہو رہے ہیں جبکہ ایک سال بعد یعنی 2024 میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اس کے باوجود کرناٹک کی انتخابی جنگ ایک اہم لڑائی ہے جو آئندہ سال کی سیاسی رفتار کا تعین کرے گی۔
بی جے پی کے لئے کرناٹک اسمبلی انتخابات اپنے تسلط و برتری کو جائز ٹھہرانے کی جنگ ہے۔ کرناٹک بی جے پی کے لئے اس لئے بہت زیادہ اہمیت رکھنا ہے کیونکہ اس جنوبی ریاست سے بی جے پی کے ارکان لوک سبھا کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا ہیکہ بی جے پی ایسے نقطہ پر پہنچ گئی ہے جس سے وہ آگے نہیں جاسکتی بلکہ نیچے آنے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ 2024 ء میں بھی بی جے پی کو کئی ریاستوں میں انتخابات کا سامنا ہے یقینا یہ انتخابات اس کی عام انتخابات میں کامیابی کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں 2019 ء کے عام انتخابات میں اگر وہ کرناٹک کی 26 لوک سبھا نشستوں میں سے نصف میں شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس نقصان کی پابجائی کی امید وہ ملک کی کسی دوسری ریاست سے نہیں کرسکتی سوائے تلنگانہ کے جہاں سے وہ کرناٹک کے امکانی نقصان کو پورا کرسکتی ہے۔ جنوب میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے بی جے پی کے لئے کرناٹک پر کنٹرول (حکومت) برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ بی جے پی 2024 تک کسی بھی بڑی ریاست کے انتخابات ہارنے کی متحمل نہیں ہوسکتی خاص طور پر ایسی ریاست میں جہاں اس کی حکومت ہو۔ کرناٹک بھی ایسی ہی ایک ریاست ہے جہاں بی جے پی کا اقتدار ضرور ہے لیکن اس مرتبہ اسے سخت مقابلہ درپیش ہے کیونکہ بومائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کو نااہل اور بدعنوان حکومت کا نام دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اسے انتہائی فرقہ پرست حکومت کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ بی جے پی حکومت میں فرقہ پرستی کو فروغ دیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم مسئلوں کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ماحول کو خراب کرنے کی جان بوجھ کر کوششیں کی گئیں۔ بی جے پی حکومت کے خلاف ’’40 فیصد سرکار ‘‘مہم چلائی گئی جو کامیاب رہی۔ یہ مہم ریاست کی کنٹراکٹرس اسوسی ایشن نے چلائی کنٹراکٹرس کا یہ الزام ہیکہ ریاستی حکومت کے کسی بھی انفرااسٹرکچر پراجکٹ کے لئے حکومت کو 40 فیصد رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس مہم سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی حکومت کی شبیہ کس قدر خراب ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بھی بی جے پی قیادت کو امید ہیکہ شبیہہ کا جو مسئلہ ہے وہ اس پر قابو پاسکتی ہے۔
اس کے لئے وہ بڑی ہشیاری کے ساتھ سوشل انجینئرنگ، مذہبی خطوط پر عوام کی تقسیم اور پیسہ کا سہارا لے رہی ہے۔ بی جے پی کو اپنے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی وزیر اعظم نریندر مودی سات مرتبہ ریاست کے دورہ کرچکے ہیں۔ کرناٹک میں اگرچہ بی جے پی نے کئی مرتبہ اقتدار حاصل کیا لیکن کبھی بھی اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ اب اس کے لئے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے اس نے آپریشن کرناٹک بھی شروع کیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کرناٹک جنوبی ہند میں داخلہ کا بی جے پی کے لئے دروازہ ہے۔ اس پر شمالی ہند سے درآمد کردہ پارٹی ہونے کا جو لیبل چسپاں ہے۔ اس لیبل کو ہٹانے کا ایک موقع ہے۔ اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد سے ہی کرناٹک میں بی جے پی کیاثر میں اضافہ ہوا لیکن 30 برس گذر جانے کے بعد بھی اسے جنوبی ہند میں واضح اکثریت سے کامیابی کا انتظار ہے۔ بی جے پی حکومت نے اپنا تسلط قائم کرنے فرقہ پرستی کا کھلے عام استعمال کیا اسے یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ حجاب اور اذان کا مسئلہ حکومت اور عوام کو درپیش ہر روز کے مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ عوام کی ابتر معاشی حالت سے بھی کہیں زیادہ یہ مسائل اہمیت رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف ریاست میں کانگریس کا وقار بھی داو پر لگا ہوا ہے۔ کرناٹک ملک کی ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں کانگریس ہنوز اپنی موجودگی کا احساس دلارہی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس قائدین سیاسی و عوامی سطح پر کافی مضبوط ہیں اور ہر شہر ہرٹاون میں اس کے ورکرس پائے جاتے ہیں۔ کل ہند کانگریس کے نئے صدر کا تعلق بھی ریاست کرناٹک سے ہے جس کے نتیجہ میں یہ انتخابی جنگ اس کے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے۔
فی الوقت ریاست میں بی جے پی حکومت ہونے کے باوجود وہ بہت کمزور ہے۔ ایسے میں اگر کانگریس کمزور بی جے پی کو ریاست میں شکست نہیں دے سکتی تو پھر مابقی ملک میں اس کی سیاسی بنیاد کی بحالی سے متعلق صلاحیت پر سوال اٹھے گا۔ ریاست کرناٹک میں کانگریس نے 26 پارلیمانی نشستوں میں سے ایک ہی نشست پر کامیابی حاصل کی اگر وہ کرناٹک سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے تو ملک میں کانگریس کے موقف کی بحالی کا دعوی کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کرناٹک میں کانگریس کو انتخابی کامیابی کی شدید ضرورت ہے کیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران مہاراشٹرا میں وہ اقتدار سے محروم ہوگئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں ایسے میں اسے ایک ایسی ریاست میں اقتدار کی اشد ضرورت ہے جہاں اسے فنڈس کی کوئی کمی نہ ہو۔ موجودہ طور پر کرناٹک واحد امکان ہے اگر سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو کرناٹک کانگریس کے احیاء کے لئے ایک آزمائش ہے۔ اگرچہ بھارت جوڑو یاترا غیر معمولی طور پر کامیاب رہی لیکن اس پر ہمیشہ یہ سوالات گردش کرتے رہے کہ کیا بھارت جورو یاترا کی کامیابی ووٹوں میں تبدیل ہوسکتی ہے؟ کیا بھارت جوڑو جو جذبہ عوام میں دیکھا گیا کیا وہ برقرار رہے گا؟ کیا راہول گاندھی اُسی جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیں گے جس طرح بھارت جوڑو یاترا میں انہوں نے حصہ لیا تھا؟ شمال مشرقی ریاستوں میں جو انتخابات ہوئے انہیں آزمائش کے طور پر نہیں دیکھا گیا لیکن کرناٹک یقینا کانگریس کے لئے ایک آزمائش ہے اور فی الوقت کرناٹک کی سرزمین اہم ترین جنگی میدان ہے۔ کانگریس کو کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ بی جے پی کی سادہ سی شکست سے کچھ اثر نہیں پڑے گا۔ ماضی میں جنتادل (سیکولر) کا جو ریکارڈ ہے اسے بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگر معلق اسمبلی وجود میں آتی ہے تو اس کا مطلب پھر ایک بار بی جے پی حکومت ہوگی یا پھر بی جے پی کے زیر کنٹرول جے ڈی ایس چیف منسٹر کی زیر قیادت حکومت ہوگی۔ ان انتخابات میں کانگریس کو واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ 224 رکنی کرناٹک اسمبلی میں اسے کم از کم 125 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی تاکہ بی جے پی ۔ جنتادل (ایس) اتحادی حکومت یا کرناٹک میں کسی آپریشن سے بچا جاسکا۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے کانگریس سے دو فیصد ووٹ زیادہ حاصل کئے اور نتیجہ میں اسے کانگریس سے 24 نشستیں زیادہ حاصل ہوئیں۔ اب اس مرتبہ کانگریس کو بی جے پی سے 6 فیصد ووٹ زیادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں چند اوپنین پولس میں دکھایا گیا ہے۔ کانگریس کو سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا اور آنے والے ہفتوں میں اسے قطعی لڑائی لڑنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ کانگریس نے اقتدار حاصل کرنے پر گروہا جیوتی (200 یونٹس تک مفت برقی) گروہا لکشمی (خاندان کی سربراہ خاتون کے لئے ماہانہ 2000 روپے وظیفہ)، انا بھاگیہ (بی پی ایل کارڈ ہولڈرس کے لئے ماہانہ 10 کیلو گرام چاول کی فراہمی) اور یواندھی (بیروزگار گریجویٹ نوجوانوں کے لئے ماہانہ 3000 روپے) کی فراہمی کے چار پرکشش وعدے کئے ہیں جن کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری طرف بی جے پی نے لنگایت اور وکالنگگاس کے لئے مزید دو دو فیصد تحفظات (مسلمانوں کو حاصل 4 فیصد تحفظات ختم کرتے ہوئے) دینے کا اعلان کیا۔ بہرحال اگر کرناٹک حجاب، اذان، لو جہاد اور گاؤ رکھشکوں کے حملوں کے ذریعہ پیدا کردہ تعصب و جانبداری کی سیاست کو شکست دیتا ہے تو اس سے 2024 کے لئے مثبت سیاست کی راہیں ہموار ہوں گی اور جنوب سے بی جے پی کا اخراج شروع ہوگا۔