مذکورہ درخواست میں شاہین باغ کی خواتین نے کہا ہے کہ تمام شہریوں کے لئے بنیادی حقوق کی ضمانت یکساں ہے اور اس کو الگ نہیں کیاجاسکتا ہے
شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جن خواتین نے احتجاج کیاتھا وہ اب سپریم کورٹ اس مانگ کے ساتھ پہنچ گئی ہیں کہ شاہین باغ فیصلے کے خلاف دائر زیر التوا ء درخواستوں کی مذکورہ زراعی قوانین کی درخواستوں کے ساتھ سنوائی کریں۔
مذکورہ درخواست میں کہاگیاہے کہ ”فیصلے پر نظر ثانی دراصل شہریوں کے حقوق کے تعلق سے ہے جو حکومتوں کی پالیسیوں کے خلاف ہیں“۔
اس درخواست میں یہ استدلال بھی کیاگیاہے کہ شاہین باغ فیصلہ اکٹوبر2020”احتجاج کے بنیادی حق کو دو ر کردیتا ہے اور اختلاف رائے کے تصور کو بھی ناکا م بنادیتا ہے جو ہماری جمہوری بنیادوں پر قائم ہے“۔
جسٹس سنجے کشن کوول‘ انیرودھا بوس او رکرشنا مورری پر مشتمل بنچ نے اپنے مشاہدے میں کہاکہ ”حالانکہ ہم یہ نتیجہ اخذکرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہورہی ہے کہ اس طرح کا عوامی راستوں پر قبضہ آیا اس جگہ پر سوا ل اٹھائے گئے ہیں یا کسی اور مقام پر احتجاج کے لئے چنا گیاہے قابل قبول نہیں ہے اور مذکورہ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ کاروائی کرتے ہوئے اس طرح کے قبضوں کو برخواست کرے“۔
تاہم کسانوں کے احتجاج سے درپیش چیالنجوں سے نمٹنے کے لئے سپریم کورٹ نے نہایت سنجیدہ رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم یہ صاف کردیتے ہیں کہ عدالت احتجاج پر اٹھائے جانے والے سوالات پر کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
کیونکہ احتجاج بنیادی حقو ق کا حصہ ہے اور یہ سچائی کا معاملہ ہے‘ عوامی نظم کے تابع ہوں۔
اس وقت تک اس طرح کے حقوق میں رکاوٹ نہیں آسکتی‘ جب تک تشدد کا سبب نہ بنے اور اس کے نتیجے میں دوسرے شہریوں کے جان ومال کو نقصان نہیں ہوتا ہے تب تک یہ حق ہے۔
ہماری سونچ ہے کہ ایسے وقت میں مذکورہ کسانوں کے احتجاج کو جاری رکھنے کی منظوری دی جائے اگر وہ بغیر کسی تشدد کے اور خلاف ورزی کے چاہئے وہ مظاہرین کی جانب سے رہے یاپھر پولیس کی جانب سے چل رہا ہے“۔
مذکورہ درخواست میں شاہین باغ کی خواتین نے کہا ہے کہ تمام شہریوں کے لئے بنیادی حقوق کی ضمانت یکساں ہے اور اس کو الگ نہیں کیاجاسکتا ہے۔
درخواست گذاروں نے زبانی سماعت کے لئے اس کو زراعی قوانین کی درخواستوں کے ساتھ جوڑنے کا استفسار کیاہے۔