کس کا قانون ، کس کا حکم

   

پی چدمبرم
ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدرسوشلسٹ اور غیرمذہبی (سکیولر) عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کیلئے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف ، اظہار خیال عقیدہ و مذہب اور عبادت کی آزادی بہ اعتبار حیثیت اور موقع حاصل کریں گے۔ ساتھ ہی ان سب میں اخوت کو فروغ دیں گے جس سے فرد کی عظمت قوم کے اتحاد و سالمیت کا تعین ہو۔
یہ ہمارے ملک کے عظیم دستور کی تمہید ہے جس میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ہندوستان کیا ہے اور اس ملک میں بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل اور علاقہ تمام کو یکساں حقوق حاصل ہے اور دستور تمام ہندوستانی شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔
مذکورہ سطور میں ہم نے دستور کی تمہید پیش کی۔ اس کے الفاظ بالکل واضح بلند عظم اور تقریباً ڈرامائی ہیں۔ یہ دستور ہم نے خود کو عطا کیا ہے اور اس کے اغراض و مقاصد میں تمام کیلئے باوقار زندگی کو یقینی بناناشامل ہے۔ خاص طور پر آزادی و اخوت اس کا بنیادی مقصد ہے۔ دستور کی تمہید کا پڑھنا، ہر عہدیدار وزیر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کیلئے لازمی کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ تمام اپنی ذمہ داریوں یا فرائض کا جائزہ حاصل کرتے وقت دستور کے تحت ایک حلف لیتے ہیں۔ ان مرد ؍ خاتون کی پہلی ذمہ داری آزادی اور اخوت کا فروغ ہونا چاہئے۔ انہیں اس طرح اپنے فرض کی ادائیگی کے قابل بناتے ہی ہم نے ایک پارلیمنٹ کی تخلیق کی (ہندوستان کیلئے) اور ( ہر ریاست کیلئے) مقننہ بنایا اور ہم نے ریاستی مقننہ کو امن عامہ اور پولیس سے متعلق قوانین بنانے کی ذمہ داریاں تفویض کی اور ریاستی مقننہ اور پارلیمنٹ دونوں کو فوجداری قانون ، ضابطہ فوجداری اور احتیاطی حراست سے متعلق قوانین بنانے (قانون سازی) کا کام بھی سونپا۔
احکاماتِ عامہ
قوانین پر عمل آوری کیلئے ایک مقننہ کی تخلیق کی ہم نے شہریوں کے بنیادی حقوق شامل کرتے ہوئے عاملہ کے اختیارات پر روک ٹوک لگائی۔ ساتھ ہی انہیں خبردار کیا کہ کسی بھی فرد کو اس کی زندگی اور شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے، سوائے اس کے کہ قانون کی جانب سے قائم و نافذ کردہ طریقہ کار اس کی اجازت دیتا ہو۔ ہم نے عاملہ کو اس بات کو یقینی بنانے کا بھی حکم دیا ہے کہ ایسا کوئی بھی شخصی جیسے گرفتار کیا گیا ہے، اسے مطلع کئے بناء حراست میں نہیں رکھا جانا چاہئے۔ جتنا جلد ہو اس کی گرفتاری سے آگاہ کردیتا چاہئے۔ اس کے علاوہ حراست میں لئے گئے فرد کو حق مشاورت اور قانونی طور پر دفاع کیلئے اپنے پسند کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے بھی نہیں روکا جانا چاہئے کیونکہ دستور میں اسے یہ حقوق دیئے گئے ہیں۔ ہم نے عاملہ کو مزید یہ ہدایت دی ہے کہ جو کوئی شخص گرفتار کیا جاتا ہے یا اسے حراست میں لیا جاتا ہے تو حراست میں لئے جانے کے فوری بعد اس شخص کو اندرون 24 گھنٹے یعنی اندرون ایک دن قریبی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے اور ایسے شخص کو مذکورہ مدت یعنی 24 گھنٹے سے زائد مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر حراست میں نہیں رکھا جانا چاہئے۔ اس طرح کی نصیحتیں اسکاٹ لینڈ کے مشہور شاعر و نغمہ نگار رابرٹ برنس نے “The Best Laid Schemes of Mice and Men” جیسے تخلیقات میں کی ہیں۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے ریاست اترپردیش کو ایسی نصیحتیں نہیں کی ہیں اور نہ ہی یہ دیکھا کہ وہاں کس طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
پہلے سانحہ ، پھر کامیڈی
لکھیم پور کھیری میں جو المناک واقعہ پیش آیا، اس میں 8 افراد مارے گئے، 4 کسانوں کو تو SUV کار تلے روند دیا گیا جبکہ 4 دیگر افراد بشمول ایک صحافی، کسانوں کی موت کے بعد پھوٹ پڑے تشدد میں مارے گئے۔ یہ فطری بات ہے کہ جب کبھی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو سیاسی قائدین متاثرہ گاؤں یا متاثرہ علاقے میں پہنچ کر مہلوکین کے ارکان خاندان سے ملاقات کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سیاسی قائدین کو ایسا کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق ہمارے دستور نے ہر ہندوستانی شہری کو حق آزادی کے تحت دیا ہے تاکہ ہم مہلوکین کے غم زدہ ارکان خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں، ان کی دلجوئی کریں اور ان کے ساتھ اُخوت کا مظاہرہ کریں۔ کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی کو جب سیتا پور کے قریب روکا گیا تب وہ لکھیم پور کھیری کی طرف جارہی تھیں۔ اس وقت صبح 4:30 بج رہے تھے، تاریخ 4 اکتوبر اور پیر کا دن تھا۔ پولیس نے انہیں سیتاپور میں روک لیا اور بتایا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 151 کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ پابندیوں سے متعلق بعض حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مرد پولیس عہدیداروں نے انہیں پولیس گاڑی میں ڈھکیل کر بٹھا دیا اور چہارشنبہ 6 اکتوبر کی شام تک پرینکا گاندھی کو پی اے سی گیسٹ ہاؤز میں رکھا گیا یعنی 60 گھنٹوں سے زائد وہ پولیس حراست میں رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پرینکا گاندھی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری سے پہلے گرفتاری کا میمورنڈم دیا جاتا ہے اور اس پر جسے گرفتار کیا جارہا ہوتا، اس کی دستخط لی جاتی ہے لیکن پرینکا گاندھی کو نہ میمورنڈم دیا گیا اور نہ ہی ان کی دستخط لی گئی۔ ساتھ ہی 60 گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے باوجود پرینکا گاندھی کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش بھی نہیں کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ کانگریس کی جنرل سیکریٹری کو ایف آئی آر (اگر کوئی تھی) کی نقل بھی نہیں دی گئی۔ انہیں اپنے قانونی صلاح کار یا وکیل سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی جبکہ وہ گھنٹوں پی اے سی کے گیٹ پر موجود تھے اور منگل 5 اکتوبر کو انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 151 اور آئی پی سی کی دفعات 107 اور 116 کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ راقم ان کئی دفعات کو شمار کرنا بھول گیا ہے جن کی خلاف ورزی کی گئی۔ اگر آپ علمی دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ مہربانی دستور کی نقولات کا مطالعہ کیجئے۔ سی آر پی سی اور آئی پی سی کی دفعات 19، 21 اور 22 کے ساتھ ساتھ سیکشنس 41B، 41D، 46 ، 50، 50A، 56، 57، 68 اور 151 بالخصوص ذیلی دفعہ (2) اور سی آر پی سی کی دفعہ 167 کے ساتھ ساتھ آئی پی سی کی دفعات 107، 106 کا جائزہ ضرور لیجئے۔
لاعلمی یا معافی
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش میں امن و امان یعنی لا اینڈ آرڈر کا تصور اور اس کے معنی و مطالب بالکل مختلف ہیں۔ اترپردیش کے چیف منسٹر کے عہدہ پر مسٹر ادتیہ ناتھ فائز ہیں۔ ہاں اترپردیش میں ایک قانون ہے اور وہ مسٹر ادتیہ ناتھ کا قانون ہے ، ہندوستان کا نہیں ۔ وہاں آرڈر ہے لیکن حقیقت میں کئی آرڈرس ہیں اور وہ ادتیہ ناتھ کے آرڈرس ہیں ، قانون سے پُر آرڈرس نہیں۔ پولیس ، امن و امان برقرار رکھتی ہے، لیکن مسٹر ادتیہ ناتھ کا قانون اور مسٹر ادتیہ ناتھ کے آرڈرس پر۔ پولیس کی عقل کو دیکھئے کہ اس نے کیسے الزامات عائد کئے ہیں۔ سی آر پی سی کی دفعہ 151 میں کوئی جرم شامل نہیں، ایسے میں کسی کے بھی خلاف اس دفعہ کے تحت الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ آئی پی سی کی دفعات 107 اور 116 اکسانے سے تعلق رکھتی ہے اور یہ الزام اسی وقت وضع کیا جاسکتا ہے اگر پولیس اس شخص کا نام بتائے جسے اکسایا گیا ہو اور اس جرم کے بارے میں واقف کروائے جس کے لئے اکسایا گیا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش کے محکمہ پولیس میں کسی نے بھی اس بھیانک غلطی کو نہیں دیکھا۔ ایسے میں یہ الزام خود مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس ضمن میں صرف یہی وضاحت کی جاسکتی ہے کہ یا تو یوپی پولیس دستور یا قوانین سے واقف نہیں یا پھر اسے دستور یا قوانین کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ دونوں وضاحتیں یو پی پولیس پر ایک طرح سے سیاہ سایہ کے مانند ہیں جس میں کئی ڈی جی پی درجہ کے عہدیدار سے لے کر اعلیٰ درجہ کے عہدیدار اور کانسٹیبلس تک شامل ہیں اور وہ ایک بہترین شبیہ کے مستحق ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ اترپردیش کی 23.5 کروڑ آبادی بہترین پولیس فورس کی مستحق ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ آزادی کو کوئی سونامی نہیں بہا لے جاسکتی بلکہ وہ ایسی لہروں سے بہہ جاتی ہے جو امباہ (سون بھدرا) ، اُناؤ ، شاہجہاں پور ، اناؤ۔2 ، این آر سی؍ سی اے اے ، ہاتھرس اور اب لکھیم پور کھیری اُٹھیں۔ کیا آپ ان لہروں کو دیکھ سکتے ہیں۔