کشادگی ہو یا تنگی اس راہ کو چنئے جو اللہ کی پسند ہے

,

   

سہولتوں اور راحتوں کی فراہمی جمود و غفلت کا پیش خیمہ ہے اور جمود و غفلت قوموں کے زوال، سلطنتوں کے سقوط اور عام بربادی کا مقدمہ ہے، دنیا کے مسلمانوں پر بھی اور ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی سہولتوں اور راحتوں کا طویل دور گزرا اور اس کے نتیجہ کے طور پر وہ طویل عرصہ تک جمود و غفلت کا شکار رہے، اور اس کا طبعی نتیجہ ظاہر ہوا۔ اب تمام دنیا میں مشکلات کا دور ہے، یہ دور انہوں نے اگر صبرو استقامت سے گذار دیا اور ان کے قوی بیدار ہو گئے تو ان کی تاریخ کے نئے اور بہتر دور کا آغاز ہوگا جس کی پیشگوئی وَنُرِيۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ اَئِمَّةً وَّنَجۡعَلَهُمُ الۡوٰرِثِيۡنَۙ ۞ [اور ہم یہ چاہتے تھے کہ جن لوگوں کو زمین میں دبا کر رکھا گیا ہے ان پر احسان کریں ان کو پیشوا بنائیں، انہی کو (ملک و مال کا) وارث بنادیں۔] کہہ کر کی گئی اور جس کی طرف فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ يُسۡرًا ۞ اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ يُسۡرًا ؕ‏ ۞ (چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ یقینا مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔) دو دو بار کہہ کر اطمینان دلایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات سے کہیں زیادہ راحتوں اور سہولتوں کا دور خطرناک امتحان ہے کہ اس میں ذرا سی چوک بڑی گرفت کا سامان بن جاتی ہے فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ (جب وہ ان چیزوں کو بھول گئے جو ان کو یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے ان کو دفعۃً پکڑ لیا، پھر وہ بالکل حیرت زدہ رہ گئے)۔

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ(سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ