کشمیری مسلمانوں کے لیے حالات مزید ابتر ہوگئے

   

حمرہ قریشی

رواں ہفتے سارے دن میں بیٹھ کر ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی تقاریر کے الفاظ اور حملوں کو بغور سننے اور سمجھنے کی کوشش کررہی تھی جس میں وہ کشمیریت انسانیت اور جمہوریت پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے اور ان کے یہ بیانات کشمیر کے حالیہ بحران کے متعلق تھے اور وہ یہ طمانیت دلوانے کی کوشش کررہے تھے کہ حکومت کشمیریوں تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ ان بیانات کے دوران گزشتہ ہفتے جب سینکڑوں نوجوان مسلم کشمیریوں کو اتراکھنڈ، پنجاب، ہریانہ اور مہاراشٹرا کے علاوہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور انہیں ہراساں کیا جارہا تھا اور انہیں کشمیر واپس لوٹ جانے پر مجبور کیا جارہا تھا اور بعض مقامات پر انہیں 24 گھنٹوں کے اندر مقامات اور مکانات خالی کرنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں تو کسی سیاسی لیڈر کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا۔ سینکڑوں کشمیری طلبہ جن کو یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ہاسٹلوں سے زبردستی باہر نکال کر انہیں وادی کشمیر کا رخ کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور ان کشمیری طلبہ میں اکثریت جنہوں نے وادیٔ کشمیر کو چھوڑ کر اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ملک کے مختلف مقامات کا رخ کیا تھا تاکہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر نہ صرف اپنا مستقبل بنائیں بلکہ وادیٔ کشمیر کو بھی امن کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ ان کا تعلق متوسط گھرانوں سے ہے۔ اب جبکہ انہیں زبردستی کشمیر واپس جانے پر مجبور کردیا گیا ہے تو ان کی تعلیم کا کیا ہوگا کیوں کہ اب چند دنوں میں امتحانات منعقد ہونے والے ہیں یا تعلیمی سال کے لیے ان کی جانب سے ادا کی جانے والی فیس کا کیا ہوگا اور ان کے سفری اخراجات کو کون برداشت کرے گا۔ علاوہ ازیں اب انہیں تعلیمی سال کے آخری دنوں میں کونسا تعلیمی ادارے داخلہ دے گا۔ ان سب بنیادی سوالات سے سب سے بڑا مسئلہ ان کی سکیوریٹی کا ہے کیوں کہ ہندوستان کے اس برہم حالات میں کوئی ان پر جان لیوا حملہ نہیں کرے گا اور انہیں موت کے گھاٹ نہیں اتارے گا؟ اس کی کون ظمانت دے گا۔ کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے میں سب سے آگے دائیں بازو کے غنڈہ عناصر ہیں جو کہ کشمیری مسلمانوں کے لیے نہ صرف نفرت کا ماحول پیدا کرچکے ہیں بلکہ انہیں ہندوستان کے مختلف مقامات سے گھربدر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں جس سے متعصب افراد کے حوصلے بلند ہورہے ہیں جو کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
کشمیری مسلمانوں کے مسائل مزید سنگین ہورہے ہیں کیوں کہ وادیٔ کشمیر میں جو حالات ہیں اس سے ان میں خوف پایا جاتا ہے جبکہ ملک کے دیگر پرامن علاقوں سے جس طرح کشمیریوں کو نکال باہر کیا جارہا ہے کیوں کہ نوجوانوں نے تعلیم اور روشن مستقبل کے لیے اپنے گھروں اور وادی کو چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں کا رخ کیا تھا لیکن انہیں زعفرانی غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے خلاف جو غنڈہ گردی ہورہی ہے اسے کسی دہشت گردی کا نام نہیں دیا جاتا اور نہ ہی انہیں کسی قانون کے تحت روکا جاتا ہے۔ نیز ان کی گرفتاری کا تو دور دور تک کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔جوکہ کشمیریوں کے خلاف ماردھاڑ سے بھی باز نہیں آتے ہیں۔
23 فروری 2019 ء کو علیحدہ پسند لیڈر اور سی پی آئی (ایم) کے ایم وائی تریگامی کا بیان بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوںنے زمینی حقائق کی بنیادوں پر کارروائی اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے پر زور دیا ہے۔ وادی کے مسلمان اس وقت مشکل ترین وقت سے گزررہے ہیں کیوں کہ ایک جانب انہیں خود اپنے گھر اور محلوں میں غیر محفوظ رہنے کی فکر ستارہی ہے تو دوسری جانب دیگر علاقوں سے باہر نکالے جانے والے واقعات نے ان کے مستقبل کو تاریک کردینے کے خوف نے پریشان کردیا ہے۔
اپنے محلوں میں شک کی نگاہ سے دیکھے جانے کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں داخلوں، ملازمت، روزگار، کرائے پر مکانوں کا حصول اور ایسے بنیادی مسائل ان کے لیے اب مزید سنگین ہوگئے ہیں اور ہرگزرتے وقت کے ساتھ یہ حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ سب سے برا مسئلہ ان کشمیری تاجروں کا بھی ہے جو کہ ہندوستان کے کئی علاقوں میں ’’کشمیری شال والے‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں کیوں کہ وہ کشمیری شالوں کی فروخت کے ذریعہ اپنی زندگی کا گزر بسر کرتے ہیں لیکن اب یہ کشمیری شہری بھی غنڈہ عناصر کے نشانوں پر ہیں۔
میں اپنا یہ مضمون اس ماحصل پر ختم کرتی ہوں کہ کشمیری مسلمانوں کے لیے طویل وقتی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ انہیں غیرسماجی عناصر کے ظلم و ستم سے بچانا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔