کشمیر سے بنگالی لیبر کے طور پر واپسی‘ وہ خود سے سوال پوچھ رہے ہیں ”اب ہم کیا کریں“۔

,

   

ملازمت کی غیر یقینی صورتحال کے بادل ان پر چھائے ہوئے ہیں اور وہ خالی ہاتھ ہیں کیونکہ کشمیر میں جو لوگ کام کررہے ہیں انہیں اجرات سے دینے انکار کردیا ہے

کلکتہ۔کیونکہ 130سے زائد مزدور کشمیر سے یہاں پیر کے روز بنگال واپس آگئے ہیں‘ شام کی وقت وہ لوگ سرکاری عہدیداروں اور چھوٹی پولیس ٹیم کے ہمراہ بنگال پہنچے‘

یہاں پر ان کے دماغ میں ایک ہی سوال ہے”میں اب کیا کروں؟ میں کیسے کماؤں؟“۔ملازمت کی غیر یقینی صورتحال کے بادل ان پر چھائے ہوئے ہیں اور وہ خالی ہاتھ ہیں کیونکہ کشمیر میں جو لوگ کام کررہے ہیں انہیں اجرات سے دینے انکار کردیا ہے۔

ضلع مالدہ کے کالیاچاک میں رہنے والے 59سالہ لطف الرحمن شیخ نے کہاکہ ”میں ایک بے زمین لیبر ہوں“۔ اس عمل میں بھی میں پیسے کمانے کے لئے بے انتہا ہاتھ کاکام کرتاہوں۔

کچھ پیسوں کی کمائی کی غرض سے میں کشمیر گیاتھا مگر ناکام ہوگیا۔ اب میں کیاکروں؟میرے پاس جو پیسے تھے وہ تمام ہوگئے۔ اب اگر حکومت ہمارے لئے کچھ کرتی ہے تو ان کا محسن رہوں گا“۔

جموں کلکتہ ایکسپریس سے پیر کے روز کشمیر سے واپس آنے والے 138لیبرس میں سے پانچ پڑوسی ریاست آسام کے ہیں وہیں باقی مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس حکومت نے 29اکٹوبر کے روز کشمیر کے کلگام میں بنگالی لیبروں کی دہشت گردوں کے ہاتھو ں ہلاکتوں کے بعد اس بات کافیصلہ کیاکہ تمام بنگالی مزدوروں کو ریاست واپس لانے کاکام کیاجائے گا۔

محکمہ آفات سماوی کے افیسر سنجیب چکری نے کہاکہ ”وہ جموں سے دوسرکاری افیسروں اور نو پولیس اہلکاروں کے علاوہ پولیس جوانوں کی ایک چھوٹی ٹیم کے ہمراہ روانہ ہوئے“۔

جملہ 133لیبروں میں ریاست کے اکثریت 112ساوتھ دینجا پور‘ 8بربہم‘6نارتھ دینجا پور‘ نارتھ 24پرگنا‘ جالپیرگرا‘ اور کوچا بہار سے دو‘ اور نو مالدہ ہیں۔ ان میں زیادہ تر سری نگر اور اس کے قریب کے علاقوں میں جہاں سیبوں کے لئے لکڑی کی پیٹیاں تیار کی جاتی ہیں وہاں پر کام کرتے ہیں

۔نارتھ پرگناس 24کے بان گاؤں کے ساکن39سالہ دیپانکر بسواس نے کہاکہ ”سال2004میں پہلی مرتبہ میں کشمیر گیاتھا‘ پندرہ سال قبل۔ اس وقت کا کشمیری ماحول دوستانہ انداز میں کام کرنے والا تھا۔

اس مرتبہ میں پچھلے سال کشمیر گیاتھا۔ ماحول بہتر تھا۔ مگر حکومت کی جانب سے ارٹیکل370برخواست کئے جانے کے بعد حالات اچانک ابتر ہوگئے۔ پہلی کی طرح اس مرتبہ ہم پوری آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکے۔

انہوں نے کہاکہ ”پچھلے ایک ماہ سے‘ یہاں پر کوئی کام نہیں ہے‘ جس کی وجہہ فیکٹری کے مالک نے ہم سے کہاکہ کچھ دنوں کے لئے ہم گھر چلے جائیں“۔